کامسیٹس یونیورسٹی ایبٹ آباد میں’ کنسرٹ تنازعہ ‘شدت اختیار کرگیا

ایبٹ آباد( زمینی حقائق ڈاٹ کام) کامسیٹس یونیورسٹی ایبٹ آباد میں’ کنسرٹ تنازعہ ‘شدت اختیار کرگیا اور اس طے شدہ کنسرٹ کے خلاف یونیورسٹی کے اندر سے آوازیں بلند ہونے کے ساتھ شہرسے بھی مخالفت بڑھتی جارہی ہے۔

یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے اجازت ملنے کے بعدکامسیٹس یونیورسٹی کی سوسائٹی فن کدہ نے تشہیری مہم شروع کی اور پروگرام میں شرکت کیلئے ایک ہزاراور دو ہزار روپے ٹکٹ بھی رکھا گیاہے جس میں بتایا گیاہے کہ گلوکار فرحان سعید سمیت دیگر شریک ہوں گے۔

یونیورسٹی میں میوزک کنسرٹ کے خلاف پہلے اسلامی جمعیت کی طرف سے آواز بلند ہوئی پھر رفتہ رفتہ اس کی حمایت میں بولنے والوں کی تعداد کنسرٹ منعقد کرنے والوں سے زیادہ ہو گئی ہے، انتظامیہ اجازت دینے کے بعد تذبذب کا شکار ہے۔

اس حوالے سے کامسیٹس یونیورسٹی کی سوسائٹی فن کدہ کا جو موقف سامنے آیاہے اس میں کہا گیاہے کہ یونیورسٹی میں ہر تھوڑے عرصے اور عموماً ایک دو سیمسٹر کے بعد طلبا و طالبات کی تفریح کے لیے فن کدہ کوئی نہ کوئی ایونٹ منعقد کرواتی رہتی ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

فن کدہ سوسائٹی کے اس ایونٹ کوپہلے اس ایونٹ کو اوپن رکھا گیا تھا مگر بعد میں اس کو ہال میں منعقد کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔ سوسائٹی نے بتایا کہ5دسمبر کے اس ایونٹ میں داخلے کے لیے ایک ہزار اور دو ہزار روپے کی مناسب فیس مقرر کی گئی ۔

اس حوالے سے میڈیا رپورٹس میں آرگنائزرز طلبہ کے حوالے سے رپورٹ ہوا ہے کہ یہ پروگرام یونیورسٹی کی انتظامیہ کی مکمل مشاورت بلکہ ہدایات کے مطابق کیا گیا ہے جس کے لیے کافی عرصے سے تیاریاں کی جا رہی ہیں مخالفت تو اب سامنے آئی ہے۔

http://

b

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں سوسائٹی کے سربراہ ڈاکٹر شاکر حفیظ کے حوالے سے بتایاگیا ہے کہ ان کا کہنا تھا کہ پروگرام کو ہال کے اندر منتقل کر دیا گیا ہے اور امن و امان کی صورتحال کو سنبھالنا پولیس کا کام ہے، جب کہ پولیس کہتی ہے جب تک درخواست نہ آئی ہم مداخلت نہیں کریں گے۔

رپورٹ کے مطابق ایبٹ آباد پولیس کا یہ بھی موقف ہے کہ صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے، امن و امان کو برقرار رکھنا پولیس کی ذمہ داری ہے تاہم پولیس یونیورسٹی کے اندر کے معاملات میں اس وقت مداخلت کرے گی جب اس بارے میں پولیس سے تحریری طور پر درخواست کی جائے گی۔

کنسرٹ کے خلاف مہم صرف سوشل میڈیا پر نہیں ہے بلکہ یونیورٹسی کے اندر بھی ہے اورباہر کے لوگ بھی سراپا احتجاج ہیں کہ یونیورسٹی تعلیم کیلئے میوزک یا بے حیائی کیلئے نہیں ہے،مخالفین کا کہنا ہے کہ مغرب کی تقلید کی بجائے مقامی روایات کو بھی پیش نظر رکھنا چایئے۔

یونیورسٹی میں ناچ گانے کے خلاف سب سے زوردار آواز اسلامی جمعیت طلبا کی ہے جس نے ہمیشہ کالجز اور یونیورسٹیز میں اسلامی اقدار کے فروغ کیلئے کام کیاہے اس کنسرٹ کے خلاف بھی اس تنظیم کی طرف سے منظم مہم جاری ہے اور وہ یہ میوزک پروگرام روکنا چاہتے ہیں۔

http://

اس حوالے سے اسلامی جمعیت طلبا ایبٹ آباد کے ناظم حنظلہ داؤد کا واضح موقف ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ تعلیمی اداروں میں موسیقی کے پروگرام ہوں۔ تعلیمی ادارے تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہوتے ہیں، میوزک کنسرٹ کے لیے نہیں۔

انھوں نے کہا کہ کامسیٹس یونیورسٹی کی انتظامیہ یونیورسٹی میں پروگرام منعقد کر رہی ہے اور اس کے باقاعدہ ٹکٹ فروخت کررہی ہے،انھوں نے سوال کیا کہ یونیورسٹی کوئی سینما گھر ہے؟ جہاں پر کسی شو کے ٹکٹ فروخت ہوں،بہتر ہے یہ پروگرام منسوخ اور ہماری رائے کا احترام کیا جائے۔

کامسیٹس یونیورسٹی کے کنسرٹ کیخلاف ٹوئٹر پر بھی ایک ٹرینڈ چلا#Ban_Obscenity_in_ComsatsAtd ہے جس میں اب تک دس ہزار کے قریب ٹویٹس شامل ہوئیں اور جنگ گروپ سے وابستہ سینئر صحافی انصار عباسی نے اس ٹرینڈ کی حمایت پر پوسٹ کی۔

ایبٹ آباد کے مقامی لوگوں کی اکثریت بھی یونیورسٹی میں کنسرٹ کے خلاف ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اگر یونیورسٹی نے مخالفت کے باوجودیہ کنسرٹ نہ روکا تو آئندہ کیلئے یونیورسٹی میں کشیدگی پیدا ہو جائے گی جو بعد میں کئی اور مسائل پیدا کرے گی۔

Comments are closed.