طالبان کی فتح اور ہماری غلطیاں
سلیم صافی
دوسروں پر تنقید سے قبل آغاز اپنے آپ یعنی میڈیا سے کرتا ہوں۔ افغانستان کے حوالے سے پاکستانی میڈیا، حب الوطنی کے جذبے کے تحت ایک سنگین غلطی کا مرتکب ہورہا ہے،جس کا کسی کو احساس نہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستانی میڈیا اپنی ریاست کی رہنمائی کر رہا ہے اور نہ طالبان کی لیکن ایک جشن کا سا سماں بندھ گیا ہے۔ مشرف حکومت کے فیصلے اور عالمی اور سفارتی حوالوں سے ریاست پاکستان آج بھی امریکہ کی اتحادی ہے اور یوں اگر امریکہ کو شکست ہوئی ہے تو اس کے ہر اتحادی کو بھی شکست ہوئی ہے لیکن میڈیا پر یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ امریکہ ہار اور پاکستان جیت گیا۔
اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہم روز امریکہ کو اپنے احسانات اور قربانیاں کیوں یاد دلارہے ہیں ؟ بدقسمتی سے ہم افغانستان کو بھی انڈیا کے آئینے میں دیکھ رہے ہیں۔یقیناً اس حوالے سے پاکستان کو کسی حد تک کامیابی ملی ہے لیکن صرف اس بنیاد پر جشن فتح منانا ٹھیک نہیں۔ اس رویے کا پہلا اور فوری نتیجہ تو یہ نکل رہا ہے کہ اس سے افغان طالبان بھی ناراض ہورہے ہیں۔ ان پر اپنے ملک میں اور مغرب میں الزام لگتارہا ہے کہ وہ پاکستان کے پراکسی ہیں۔ اب ان کے سامنے یہ چیلنج ہے کہ وہ افغانوں اور دنیا پر ثابت کریں کہ وہ خودمختار ہیں۔ مدد جس کی بھی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ قربانیاں تو طالبان نے دی ہیں، جنگ انہوں نے لڑی ہے۔
گوانتاناموبے اور بگرام بلکہ پاکستانی جیلوں میں جنرل حمید گل، مولانا سمیع الحق مرحوم یا مولانا فضل الرحمٰن یا عمران خان نہیں گئے۔ پی ٹی آئی کے رہنما کنٹینروں پر کھڑے ہوکر گرجے ضرور ہیں لیکن وہ طالبان کی طرح جنرل مالک اور جنرل دوستم کے ہاتھوں کنٹینروں میں بند ہوکر قتل نہیں ہوئے۔ اب جب ان کی فتح کو پاکستان کی فتح قرار دیا جاتا ہے تو انہیں بجا طور پر غصہ آتا ہے اور اپنی قوم اور دنیا کی نظروں میں اپنے آپ کو خودمختار ثابت کرنے کا ان کا کام مشکل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اپنی خودمختاری کو ثابت کرنے کے لئے انہیں مجبوراً ایسے بیانات دینے پڑیں گے یاپھر ایسے اقدامات اٹھانے ہوں گے جو پاکستانیوں کو اچھے نہیں لگیں گے۔
دوسری غلطی جس کا ہمارا میڈیا مرتکب ہورہا ہے یہ ہے کہ ہمارے رپورٹرز اور اینکرز نے کابل پر یلغار کردی ہے۔ دوسری طرف افغان میڈیا کے اہم لوگ ہجرت کررہے ہیں۔ اس سے بھی افغانوں کو یہ غلط پیغام جارہا ہے کہ جیسے افغانستان، پاکستان کا مفتوحہ ملک بن گیا۔ ایک اور مسئلہ یہ درپیش ہے کہ طالبان ابھی اپنا کنٹرول سنبھالنے میں لگے ہوئے ہیں اور ادھر پاکستانی رپورٹر ان کے سامنے مائیک لئے کھڑے ہیں۔ ان رپورٹرز کو طالبان کا جو بھی بندہ ہاتھ آجائے تو ان سے عموما دو ہی سوال پوچھتے ہیں۔ ایک ٹی ٹی پی کے بارے میں اور دوسرا انڈیا کے بارے میں اور ان دونوں سوالوں سے وہ بہت چڑتے ہیں۔ وہ ایک ہی طرح کا جواب دیتے ہیں تو پاکستان کے پراکسی بننے کا تاثر پختہ ہوتا ہے جو کوئی افغان نہیں چاہتا اور دوسری طرح کا جواب دیتے ہیں تو پاکستان ناراض ہوتا ہے۔ اب طالبان مخالف افغان تو پہلے سے پاکستان سے نفرت کرتے ہیں لیکن اگر ہمارے میڈیا کا یہ رویہ رہا تو یہ خدشہ ہے کہ جلد ہم طالبان کو بھی اپنا دشمن بنالیں گے۔
جہاں تک پاکستانی حکومت کا تعلق ہے تو وزیراعظم ایک ہفتے فریاد کرتے ہیں کہ امریکیوں کے جلدانخلا کی وجہ سے بحران کھڑا ہوگیا ہے لیکن اگلے روز نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیے میں جوبائیڈن کے انخلا کے فیصلے کو سراہا جاتا ہے۔ عالمی برادری اور پاکستانی ریاست کا طالبان سے مطالبہ ہے کہ وہ انکلوسیو اور سب فریقوں پر مشتمل حکومت بنادیں (جس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے) لیکن دوسری طرف وزیراعظم کے بیانات سے ایسا تاثر مل رہا ہے کہ جیسے وہ دنیا سے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ایک وزیر کچھ کہتا ہے تو دوسرا وزیر کچھ کہتا ہے۔ وزیر مشیر بغلیں بجاکر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ طالبان کی فتح پاکستان کی فتح اور امریکہ یا انڈیا کی شکست ہے۔
وہ سمجھ رہے ہیں کہ اس طرح وہ طالبان کو خوش کررہے ہیں لیکن یہ رویہ طالبان کوزہر لگتا ہے۔ جو کمی رہ جاتی ہے وہ ہماری مذہبی جماعتیں پورا کررہی ہیں جیسے یہ جنگ طالبان نے نہیں بلکہ انہوں نے لڑی ہے۔ حکومت اور مذہبی سیاسی جماعتوں کا یہ رویہ بھی طالبان کو اس پر مجبور کرسکتا ہے (مجاہدین کی صورت میں ہم یہ سب کچھ دیکھ چکے ہیں) کہ وہ اپنی خودمختاری ثابت کرنے کے لئے پاکستان سے متعلق کچھ ایسے بیانات دیں یا اقدامات کریں جو ہمیں بہت ناگوار گزریں۔ مجاہدین کی صورت میں یہی ہوا کہ جب وہ افغانستان پر قابض ہوئے تو ہم ان کے ماضی کی بنیاد پر ان سے تحکمانہ انداز میں بات کرتے تھے جبکہ دوسری طرف وہ اس نفسیاتی کیفیت سے گزر رہے تھے کہ اپنے آپ کو آزاد اور خودمختار افغان اور حکمران ثابت کریں۔
جب اپنے امیج کی بحالی کے لئے انہوں نے کچھ اقدامات پاکستان کی مرضی کے خلاف اٹھائے تو ہمارے لوگ اس بات پر غصہ ہونے لگے کہ ہماری بلی ہمی کو میاوں۔ چنانچہ مختصر عرصہ میں وہ مجاہدین ہمارے دشمن اورانڈیا و ایران وغیرہ کے دوست بن گئے۔ یہی کچھ حامد کرزئی وغیرہ کے معاملے میں ہوا۔ترکی میں سہ فریقی میٹنگ میں پرویز مشرف نے حامد کرزئی کے ساتھ ترک صدر کی موجودگی میں تلخ گفتگو کی تھی جس کا جواب پھر حامد کرزئی نے بھی اسی انداز میں دیا تھا۔ ایک نشست میں پرویز مشرف سے اس حوالے سے میں نے پوچھا تو انہوں نے بڑی حقارت سے کہا کہ کیا آپ نہیں جانتے کہ یہ کرزئی ادھر پاکستان میں تھے اور ہمارے فلاں فلاں بندے ان کو ڈیل کرتے تھے۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ جناب اس طرح تو آپ بھی کسی زمانے میں کپتان تھے۔
اب حامد کرزئی افغانستان کے صدر ہیں تو آپ ان کو اپنا زیردست کیوں سمجھتے ہیں؟ ہمیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ اب طالبان حکمران بن گئے ہیں۔ اب اگر ہم ان سے ماضی کی بنیاد پر تحکمانہ انداز میں بات کریں گے تو بہت جلد انہیں اپنا دشمن بنالیں گے۔ اب ہمیں ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے کہ وہ جیسا چاہیں اپنا نظام بنائیں۔ ہمارے جو خدشات اور تحفظات ہیں ، وہ ان کے سامنے اس طریقے سے رکھنا چاہئیں جس طرح کسی بھی دوست پڑوسی ملک کے حکام کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔ ہاں البتہ ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کسی عجلت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ہمیں کوئی بھی فیصلہ چین، روس اور ایران وغیرہ کے ساتھ مل کر کرنا چاہئے۔
( بشکریہ روزنامہ جنگ)
Comments are closed.