ابتدائی طبّی امداد۔۔۔زندگی کی ضمانت
خالد بن مجید
پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ”فرسٹ ایڈ“کا دن منایا جا رہا ہے۔ پہلی باریہ دن 2000ء میں انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس، ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز نے منایا اور آج تک ہر سال پوری دنیا میں باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر لوگوں کو ابتدائی طبی امداد کی اہمیت و افادیت بارے بتایا جاتا ہے۔ اور عوام الناس کو اس تربیت کے حصول کی جانب راغب کیا جاتا ہے۔
امسال موضوع ”سکول کے بچوں کیلئے ابتدائی طبّی امداد“تھامگر چونکہ ابھی تک سکول کھل نہیں سکے، اِس لیے اِس عنوان کو ”وباء میں ابتدائی طبّی امداد“میں بدل دیا گیا ہے۔ کورونا کی وباء نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے ہر ملک کا شعبہ صحت متاثر ہوا،بالخصوص پاکستان میں شعبہ صحت کو سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اِس وباء کے باعث ماں بچے کی صحت، حفاظتی ٹیکہ جات کے پروگرام متاثر ہوئے ہیں۔چونکہ وبائی صورتحال میں خوف کی فضا زیادہوتی ہے، اِس لیے زیادہ فوکس بھی وباء کے کنٹرول پر ہوتا ہے۔ ایسے میں دیگر بیماریوں، حادثات کے زخمیوں،پر تشدد کا کارروائیوں کے زخمیوں کیلئے ابتدائی طبّی امدا دہسپتالوں میں قدرے مشکل ہوتی ہے۔
اِس لیے اگر ہر فرد یہ طبّی امداد دینا سیکھ جائے تو وباء کی صورتحال میں یہ امداد بہم پہنچا کر انسانی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ کسی بھی جان لیوا حادثے کی صورت میں زیادہ تر لوگ زخموں کی تاب نہ لا کرزندگی کی بازی ہار جاتے ہیں یا ابتدائی طبی امداد نہ ملنے سے؟ ابتدائی طبی امداد حادثات و سانحات میں جائے حادثہ پر زخمی یا بیمارکو ملنے والی مدد کو کہتے ہیں جو کسی بھی پیشہ ورانہ طبی امداد کی فراہمی سے قبل دی جاتی ہے۔
حادثے کیلئے وقت مقرر نہیں ہو تا ہے بلکہ یہ روز مّرہ زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ مصنوعی طریقہ سے سانس بحال کر نا، کسی زخمی کے خون کو روکنا، زخموں کی دیکھ بھال اور جراثیم سے بچانا، صدمہ کی حالت میں نفسیاتی امداد دینا،خوف کو دورکرنا، حوصلہ دینا، اگر مریض کی ہڈی ٹوٹ گئی ہو تو اسے سہارا دینا، ایسا بندوبست کرنا کہ مریض کو کم سے کم حرکت ہو، تمام کام نرم ہاتھوں سے سر انجام دینا اور اسکو آرام دہ حالت میں .قریبی ہسپتال تک پہنچانا ابتدائی طبی امداد کا ہی نام ہے
ایک فرسٹ ایڈر کے لئے ضروری ہے کہ وہ انسانی جسم میں بنیادی نظام کا تھوڑا بہت علم رکھتا ہو۔ ہر روز ملکی اخبارات ایسی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں جن کے آخر میں لکھا ہوتا ہے کہ ٹریفک حادثے کے بعد فلاں زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا۔ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی جان اس لیے بھی نہیں بچائی جا پاتی کہ ان کے آس پاس موجود کسی بھی فرد کو ابتدائی یا فوری طبی امداد دینا نہیں آتی.
ہلال احمر کے چیئرمین ابرار الحق اس وژن کو آگے بڑھانے میں کو ئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہے کہ معاشرے کا ہر فرد فرسٹ ایڈ سیکھے اور دوسروں کو بھی سکھائے۔یہ مہارتیں ہلال احمر کے پلیٹ فارم سے بلا امتیاز بلا تفریق سیکھی جا سکتی ہیں۔ یقین جانئے،پاکستان میں طبی سہولتوں اور بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ حادثات کا شکار ہونے والے افراد پر خرچ ہو جاتا ہے۔
عام لوگوں میں ابتدائی طبّی امداد سے متعلق معلومات بہت کم ہیں اور حادثے کے بعد سے ہسپتال لانے تک کے عرصے کے دوران میں متاثرہ شخص کو طبی امداد دینے کے بارے میں ہمارے عام ڈاکٹروں کو بھی مناسب تربیت نہیں دی جاتی۔ ان وجوہات کے سبب حادثے کے فوری بعد کا قیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے لوگ عام طور پر جائے حادثہ یا ہسپتال پہنچائے جانے کے دوران ہی دم توڑ دیتے ہیں۔
ایمرجنسی اور حادثات میں زیادہ تر اموات سانس اور دل بند ہونے یا جسم سے خون کے وافر مقدار میں ضیاع کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ابتدائی طبی امداد کی فراہمی ہر زخمی شخص کا بنیادی حق ہے لیکن ہر شخص تک ہر جگہ اور ہر وقت اِسکی رسائی کیلئے ضروری ہے کہ معاشرے میں زیادہ سے زیادہ ”فرسٹ ایڈ“ کی تربیت کو عام کیا جائے اور لوگوں کو آگاہی کے ساتھ ساتھ زندگی بچانے کی مہارتوں پر عبور حاصل کرنا چاہیے۔
روڈ ٹریفک ایمرجنسی نہ صرف پاکستان کا بلکہ ساری دنیا بالخصوص ترقی پذیر ممالک کا بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور ان حادثات میں بروقت اور مناسب طبی امداد کی عدم فراہمی کیوجہ سے بہت سے لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ ہر شہری کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ایمبولنس سروس ایمرجنسی سروس کا ایک اپنا کردار ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا .
بحیثیت شہری ہر ایک کو طبی امداد کی تربیت حاصل کرنی چاہیے تاکہ حادثے یا سانحے کی صورت میں وہ متاثرین کو طبّی امداد فراہم کر سکیں۔اِس دن کے منانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ابتدائی طبی امداد کی تربیت حاصل کی جائے اور دوسروں کو اسکی تربیت کی طرف راغب کیا جائے۔ یہ وہ بنیادی مرحلہ ہے جو کسی حادثے یا سانحے میں زندگیاں بچانے کیلئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اگر ہر ادارہ اس اہمیت کو اجاگر کر کے اس تربیت کو لا زم قرار دے تو کوئی وجہ نہیں کہ حادثات میں جم غفیر خاموش تماشائی بننے کے بجائے متاثرین کی مدد کر کے بہت سی قیمتی جانوں کو بچانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔حادثات سے بچاوکے لئے ہم سب کو ملکر کام کرنا ہے کیونکہ پاکستان ہم سب کا ہے اور یہ ممکن ہے کہ شاید ہمیں پوری زندگی میں صرف ایک بار کبھی ایسا موقع ملے کہ ہم اپنے کسی بھائی بہن کو کسی ایمرجنسی میں فوری مدد فراہم کرکے اْسکی قیمتی جان بچا سکیں.
یہ خدمت تو پوری انسانیت کی خدمت کے برابر ہے قدرتی آفات و سانحات، انسان ساختہ حادثات، زلزلہ، سیلاب کے دوران متاثر ہونے والے لوگوں کو ابتدائی طبّی امداد فراہم کرکے اِن کی قیمتی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش ِ نظر ہر یونین کونسل اور وارڈ میں تربیت یافتہ رضاکار جو ابتدائی طبّی امداد کے طریقوں سے بخوبی شناسا ہونے کی ضرورت ہے۔
ابتدائی طبّی امداد کے گُر سکھانے کا ہلال ِاحمر مستند ادارہ ہے۔ اِس کا نصاب بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا۔اِس نصاب کی قومی وزارت صحت نے باقاعدہ توثیق بھی کردی ہے۔ ہلالِ احمر نے محرم کے ایام میں عزاداروں کو ابتدائی طبّی امداد فراہم کرنے کیلئے اقدامات کیے، ملک بھر میں 3 ہزار سے زائد عزاداروں کو موقع پر فرسٹ ایڈ دی گئی۔ہلالِ احمر یہ خدمت بلا معاوضہ ہر سال فراہم کرتا ہے۔
ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ سکول، کالج اور جامعات میں فرسٹ ایڈ کے طریقے سکھانے کا باقاعدہ بندوبست کیاجائے، این سی سی کی طرز پر ابتدائی طبّی امداد سیکھنے کولازمی قرار دیا جائے۔وفاقی اور صوبائی سطح پر ابتدائی طبّی امداد سے متعلق مواد کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
وطنِ عزیز کے ”ہر گھر میں ایک فرسٹ ایڈر“ ہلالِ احمر کا مشن ہے۔ اِس مشن کی تکمیل کیلئے حکومت کو ایک قدم آگے آنا ہوگا۔حکومت ہلال ِاحمر کی سرپرستی کرے تاکہ ابتدائی طبّی امداد کے ملک گیر پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کیا جاسکے۔ آج کا دِن منانے کا مقصد عوام الناس کو ”فرسٹ ایڈ“ کی اہمیت، ضرورت اور افادیت سے آگاہی دینا ہے کہ کس طرح ہم یہ طریقے سیکھ کر کسی زخمی کسی مریض کو موقع پر طبّی امداد دے سکتے ہیں.
کس طرح کسی اپنے پیارے کو ہسپتال پہنچانے کی مشکلات جھیلنے، وقت ضائع کرنے سے پہلے طبّی امداد دے کر اِس کی زندگی کی سانس بحال رکھ سکتے ہیں۔ آج کادِن اِس عہد کا متقاضی ہے کہ ہمیں صحت مند اور محفوظ معاشرہ کے قیام کیلئے اپنا اپنا کردار بخوبی نبھانا ہوگا.
رضاکاریت کو فروغ دینا ہوگا، زندگی کا مقصد سمجھ کر جیا جائے ایک انسانی جان بچانا پوری انسانیت بچانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے اِس لحاظ سے ہماری ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔ ذمہ دار افرادہی ذمہ دار معاشرہ تشکیل دیتے ہیں، ہلالِ احمر ایسے ہی معاشرہ کیلئے کوشاں ہے۔
(لکھاری ہلالِ احمر کے سیکرٹری جنرل ہیں)