درست فیصلے کا وقت
محبوب الرحمان تنولی
عوامی آراء ہر بار منقسم ہوتی ہے۔۔ہر کوئی اپنی کہی بات کو حرف آخر سمجھ رہا ہوتا ہے۔۔قیاس آرائیوں ، خواہشات ،امیدوں اور اندازوں کی منہ زور آندھیاں چلتی ہیں۔۔انتخابی مہینہ سیاسی ساون کی مانند ہوتاہے۔۔ ایک طرف نعروں ، وعدوں، سنہرے سپنوں کی جھڑی لگی ہوئی ہے ۔ بے کیف جشن بہاراں چلتا ہے۔۔ دوسری جانب ہر بار فریب کھانے والے عوام ایک نئے جال کیلئے خود کو پیش کر رہے ہوتے ہیں۔۔ انتخابی پلیئرز متوقع نتائج کے پیش نظر پسینے سے شرابور۔۔۔اب کی بار بھی ایسا ہی ہے۔۔ آج عوامی عدالت آئندہ 5سال کیلئے مسند اقتدار کا فیصلہ سنانے والی ہے۔۔
حق تو یہ ہے کہ جب قومی اہمیت کے معاملات پر رائے دی جائے تو دیانتداری سے جو دیکھیں ، جو سمجھیں جو بہتر لگے اس پر دلیل کے ساتھ بات کی جائے۔۔دلیل میں ماضی ، حال اور مستقبل کو ضرور محلوظ خاطر رکھیں مگر چیزوں کو گڈ مڈ نہ ہو نے دیا جائے۔۔ زمینی حقائق کو یکسر نظر انداز کرکے آئیڈیالزم کا شکار ہو نا۔۔ پراپیگنڈا کے بہاو میں بہہ جانا۔۔آنکھوں کے سامنے جھوٹ، کرپشن، منی لانڈرنگ اور غلط بیانی دیکھ کر بھی نظر انداز کرجانا بہت خطرناک رجحان ہے۔۔ ۔ زیادہ پرانے نہ سہی لیکن گزشتہ تیس سالوں کی تاریخ کے ہم چشم دید گواہ ہیں۔۔ہم نے کئی حکومتیں بنتی ٹوٹتی دیکھی ہیں۔۔ آمریت کو کودتے بھی دیکھا ہے اور گارڈ آف آنر کے ساتھ جاتے بھی۔۔۔
قیادت کیلئے جاری دوڑ میں تین جماعتیں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف پیش پیش ہیں۔۔ گرچہ ایم کیو ایم ، اے این پی، ایم ایم اے اور آزاد جیپ والے بھی ہیں لیکن وہ سب سپورٹنگ کردار ہیں۔۔ نواز شریف کی بات لمبی ہے شروع بلاول بھٹو زرداری سے کرتے ہیں۔۔ پنڈ ی گھیپ ، حسن ابدال، اٹک تک بلاول بھٹو زرداری کی ریلی بھی کافی بڑی تھی۔۔ اور خوش قسمتی سے اب تک کی تقاریر کے مطابق بلاول نے کوئی غلط زبان استعمال کی نہ کوئی فاول پلے کیا۔۔ پوری ٹیم میں یہی ایک کھلاڑی ہیں جسے ابھی تک آزمایا نہیں جاسکا۔۔ ان سے مستقبل میں اچھے مستقبل کی قیادت کی امید باندھی جاسکتی ہے۔ لیکن آصف زرداری کی موجودگی میں وہ چیئرمین ہو کر بھی بااختیار نہیں ہیں۔
اسے محض روائتی تنقید کے زمرے میں لینا زیادتی ہوگی کہ جب یہ کہا جائے کہ نواز شریف کااقتدار قوم کو بہت مہنگا پڑاہے۔ ۔بد انتظامی کی مثالیں قائم ہوئیں۔۔2013کی انتخابی مہم میں کشکول توڑنے کے دعوید اروں نے اتنے قرضے لئے کہ اب واپسی اور سود کی ادائیگی کسی بھی آنے والی حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہوگا۔۔مسلم لیگ ن کی حالیہ ختم ہونے والی حکومت کی بات کریں تو ،،روڈز پراجیکٹس ،، کو مائنس کر لیا جائے تو ان کے کریڈٹ میں کچھ نہیں بنتا۔۔۔دیانتداری پر مبنی سوچ اپنائیں تو میاں صاحب کا انقلاب پانامہ سکینڈل میں الجھ جانے کے بعد نظر آتا ہے۔۔ اس سے پہلے وہ جس کو خلائی مخلوق کہہ رہے ہیں ان کے شراکت دار نظر آئیں گے۔۔ اپنی حکومتیں بنانے میں بھی اور دوسروں کی حکومتیں گرانے میں بھی۔۔
لکھنے کا مقصد قطعی کسی خفیہ سرگرمی کی حمایت نہیں ہے ۔۔ لیکن اس بات سے کوئی انکار بھی نہیں کر سکتا ہے۔۔ اگر عدالتوں کے فیصلوں اور احکامات پر عمل درآمد کے پیچھے کوئی طاقت نہ ہو تو یہ اسی طرح عدالتوں کو بھی خاطر میں نہ لائیں جیسے عدالت عظمیٰ پر حملہ آور ہونے کی مثال سامنے ہے۔۔
پاکستان اس لحاظ سے تاریخ کے ایک نازک موڑ پر ہے کہ اسے جہاں بھارت کی پاکستان دشمن سرگرمیوں اور مذموم مقاصد کا سامناہے وہاں امریکہ بھی افغانستان میں شکست کھانے کے بعد پاکستان سے ڈو مور ڈو مور کہتے کہتے مخالف بن چکا ہے۔۔ اتحادی ہونے کے باوجود امداد بھی روک لی۔۔ پاکستان کو گرے لسٹ میں بھی دھکیل دیاگیا۔۔ بھارت سے دوستی میں بھی پاکستان اور چین مخالف عزائم ہیں۔۔ ایسے میں سابق حکومت نے ملک کو مزید بے توقیر ہونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔خارجہ امور سکڑ کر صرف ترکی سے دوستی تک رہ گئے ۔۔وہ بھی شریف فیملی ایسے شو کررہی ہے جیسے طیب اردوان سے ذاتی دوستی کی وجہ سے پاک ترکی دوست ہیں۔۔پاکستان اسلامی ایٹمی طاقت ہونے کی حثیت میں اقوام عالم کی قیادت کی بجائے اپنی وقعت بھی کھوتا چلا گیا۔۔
جس کسی کو یقین نہ ہو ۔۔ فلسطین اور امریکہ سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے خلاف طیب اردوان کے بلائے گئے او آئی سی اجلاس کی روداد پر نظر دوڑا لے۔۔ پاکستان کا کردار اس میں صرف عام ووٹر سے زیادہ نظر نہیں آیا۔۔ اجلاس کے بعد کے گروپ فوٹو میں ساٹھ سے زائد ممالک کی تنظیم کے سربراہان میں ہمارے جذوقتی سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ایک کونے نکرے میں نظر آئیں گے۔۔ وہ جو کبھی دنیا بھر کے میڈیا میں پاکستان کی معیشت کے بلندیوں پر جانے کی خبر یں چھپواتے اور جعلی سروے کرکے ایشیا ء کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں پاکستان کی رینکنگ بڑھارہے تھے۔۔ ان کے مسند اقتدار سے اٹھتے ہیں۔۔ دعووں کے بے ترتیب اور ناپائیدار محل زمین بوس ہو گئے۔۔ ہم نے معیشت کے کھوکھلے دعووں کی قلعی کھلتے دیکھی۔
ملکی ادارے کیسے تباہ ہوئے۔۔۔سسٹم کیسے جام ہوا۔۔ سلکٹیڈ بیوروکریسی کو شطرنج کی چالوں کی طرح بسا ط پرکیسے بکھیرا گیا۔۔۔ یہ ایک لمبی بحث ہے ۔۔ یہاں مقصد کسی کا پوسٹ مارٹم کرنا نہیں۔۔ آج کے دن یعنی25جولائی 2018کو انتخابات کے موقع پر تحریر کا مقصد قلم کا قرض ہے۔۔ دستک دینے کا متقاضی موقع ہے۔۔ نوجوان نسل اور باشعور پاکستانیوں کو باور کرانا ہے کہ خدا کیلئے ذہن سے کام لو۔۔ اس ملک کی بہتری کیلئے اللہ پاک نے فیصلے کا اختیار آپ کو دے دیاہے۔۔۔ اگر روائتی نعرہ بازی۔ انتخابی دعووں ۔ سطحی پراپیگنڈا ۔ کے جذباتی ریلے میں بہہ گئے تو ایک بار پھر ملک کو پچھلا گیئر ہی لگے گا۔۔ ملک کی موجودہ صورتحال سب کے سامنے ہے۔۔
اگر کوئی شفاف انداز میں چلنے والا حکمران بن گیا جو خود بھی آئین اور قانون کی پاسداری کرتا ہو تو یقینا پھر وہ سب کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہنے پر قائل کر سکتاہے۔۔ جب کوئی حکمران ملک و قوم کی بہتری ۔۔ عوام کے مسائل سے نکالنے اور ملک کو آگے لے جانے کی ٹھان لیتا ہے تو پھر اللہ پاک اس کے راستے بھی بنا لیتا ہے۔۔ لیکن بد نیتیوں کیلئے رکاوٹیں بھی بنتی رہتی ہیں۔۔۔خلائی مخلوق کا شور مچانے والوں کو بھی پتہ ہے کہ ترکی میں عوام طیب اردوان کیلئے ٹینکوں کے آگے ویسے ہی نہیں لیٹے تھے۔۔۔ طیب اردوان نے ڈلور کیا۔۔ ملکی قرضے اتارے۔۔ مسائل کے بھنور سے باہر نکالا ملک کو۔۔ ۔
آ ج کا دن پاکستان کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔۔ کوئی سمجھے تو تاریخ بدل سکتا ہے۔۔ نوجوانوں کو فیصلہ کرناہے کہ وہ کون سے پاکستان میں رہنا پسند کریں گے۔۔۔ ایک طرف ماضی کے تلخ تجربات ہیں ۔۔ مسائل کے انبار ہیں۔۔ ملکی معیشت بھنور میں ۔۔ ادارے تباہ حال ۔۔ قرضے ہمالیہ کو چھوتے ہوئے۔۔ اور دوسری جانب امیدکا چھوٹا سا ٹمٹماتا چراغ ۔۔۔ جو روشن صبح کا پیغامبر ثابت ہو سکتاہے۔۔بس درست فیصلے کی ضرورت ہے ۔۔ اور درست فیصلے کا وقت آن پہنچا ہے۔۔۔آج گھر نہ بیٹھیں ووٹ کا حق ضرور استعمال کر یں۔