متوقع وزیراعظم کے پہلے 100 دن
شمشاد مانگٹ
انسانی عقل اور پاکستان کے سیاستدانوں کی ”جماعت تبدیلی“ کی شرح کو دیکھتے ہوئے آثار نظر آرہے ہیں کہ اقتدار کا گھوڑا بنی گالہ کی پہاڑی پر چڑھ رہا ہے اور آئندہ اقتدار کے دلہا عمران خان ہی ہوں گے۔ ایک سوچ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت زیادہ مضبوط ہوتی اگر پارٹی تبدیلی کا عمل ”جنس تبدیلی“ کے آپریشن سے زیادہ خطرناک ہوتا۔ چونکہ پارٹی تبدیل کرتے ہوئے کسی بھی سیاستدان کیلئے کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا اس لئے اقتدار کے ہما کی اُڑان کو دیکھتے ہوئے 90 فیصد سیاستدان اپنی ”سیاسی جنس“ آسانی سے تبدیل کرلیتے ہیں۔
ایک ماہ پہلے تک جو شیر ہونے پر فخر کرتے تھے اب عمران خان کے مایہ ناز کھلاڑی ہونے پر اِترار رہے ہیں۔ عمران خان اور ان کے ساتھی آنے والے اقتدار کیلئے ”امید“ سے ہیں لیکن انہوں نے اپنے پہلے 100 دن بارے ایجنڈا تقریباً 3 ماہ پہلے ہی دے کر جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے۔
عمران خان مخالفین کی سزاؤں اور خود پر ہوین والی ”عطاؤں“ بارے خبر بریک کرکے شریف برادران کے زخموں پر ”نمک پاشی“ کرتے رہتے ہیں۔ مگر 100 دن کا ایجنڈا جلد بازی اور ”رنگ بازی “ کا مظہر قرار دیا جاسکتا ہے۔ عمران خان کم وقت میں بہت کچھ کر گزرنے کا عزم کئے ہوئے ہیں جو کہ اچھی بات ہے لیکن یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ گزشتہ 70 سال سے عوام ایسے ہی ایجنڈوں کے ذریعے لٹتی آرہی ہے مگر عملاً کچھ نہیں ہوسکا۔
عمران خان اور ان کی ٹیم نے 100 دن کا ایجنڈا ایسے دیا ہے جیسے انہیں مکمل یقین ہے کہ دو تہائی اکثریت ان کی جیب میں ہے۔ اس ایجنڈے پر عمل درآمد کیلئے انہیں دو تہائی اکثریت درکار ہوگی لیکن اگر تین ماہ بعد الیکشن نتائج حقیقت کچھ اور بیان کررہے ہوئے تو پھر ایہ ایجنڈا ادھورا ہوگا۔
جیسا کہ سینیٹ الیکشن میں آزاد گروپ اور پیپلزپارٹی سے مل کر چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ممکن ہوا بالکل اسی طرح اگر آئندہ الیکشن نتائج نے پی ٹی آئی‘ پی پی پی اور آزاد گروپ کو ایک دوسرے کی ضرورت بنا دیا تو پھر موجودہ بیان کیا گیا 100 دن کا ایجنڈا ایک مذاق بن کر رہ جائے گا۔ اس قسم کا ایجنڈا عمران خان کو الیکشن جیت جانے کی صورت میں پیش کرنا چاہیے تھا۔ وگرنہ سیاستدانوں کی چال دیکھنے والے اس ایجنڈے کے پیچھے بھی خلائی مخلوق کا ”کھرا“ تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
اس سے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو ‘ میاں نواز شریف بھی ناقابل عمل 100 دن کا ایجنڈا پیش کرچکے ہیں جبکہ گزشتہ حکومت میں چوہدری نثار علی خان نے اپنی ذات کی حد تک 100 دن کاایجنڈا پیش کیا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ میاں نواز شریف کی حکومت نے اگر لوڈ شیڈنگ بدامنی اور بے روزگاری 100 دن میں ختم نہ کی تو وہ اقتدار سے الگ ہوجائیں گے ۔ لیکن حکومتی کارکردگی پرکھنے میں انہوں نے ساڑھے چار سال لگائے اور ان کی حکومت سے علیحدگی کی وجہ وہ نہیں تھی جو انہوں نے دعوے کئے تھے۔
ہمارے کلچر میں ایک کہاوت مشہور ہے ”سو دن چور کا ایک دن سعد کا“ یعنی چور کیلئے واردات کے 100 مواقع ہوتے ہیں مگر آخر کار اسے قانون کے شکنجے میں آنا ہی پڑتا ہے۔ میاں نواز شریف نے بھی 100 دن کا ٹارگٹ رکھ کر اپنا اور اپنے خاندان کا بھرپور ”خیال“ رکھا اور آج وہ اربوں روپے کے مالک ہیں لیکن گزشتہ دو سال سے مسلسل ”سعد“ کے قابو میں ہیں۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے 100 دن کے ایجنڈے کی صورت میں سرے محل اور مے فیئر فلیٹس وجود میں آئے تھے اور اب ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت جو کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت بننے کیلئے آئندہ انتخابات کی منتظر ہے بھی 100 دن کی بات کررہی ہے تو دل میں وسوسے اور بدگمانیاں جنم لیتی ہیں۔ عمران خان اقتدار ملنے کے بعد بلدیاتی اداروں کو بھی ٹھیک کرنا چاہتے ہیں اور زراعت کی بھی بہتری کیلئے امید دلا رہے ہیں۔
عمران خان خیبرپختونخواہ کے طرز پر بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات کی منتقلی کا بھی ایجنڈا اٹھائے ہوئے ہیں۔
وفاق پاکستان کو مستحکم کرنا اور معیشت کی بحالی کے ساتھ ساتھ پاکستان کو سرمایہ کاری کیلئے دوست ملک کے طور پر اُجاگر کرنا بھی ان کا مشن ہے۔ اور ملک بھر میں سیاست سے پاک پولیس بھی ان کے 100 دن کے منشور کا حصہ ہے۔ اسی طرح بیورو کریسی میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کیلئے وہ ٹاسک فورس بنانے کی سوچ رکھتے ہیں۔ حالانکہ بیورو کریسی بذات خود ایک ایسی فورس ہے جس نے آج تک ہر جمہوری اور غیر جمہوری حکومت کی ناکامی کیلئے منفی کردار ادا کیا ہے۔
عمران خان نے اگر اصلاحاتی فورس بنائی تو پھر بیورو کریسی فورس اور اصلاحاتی فورس میں گھمسان کی جنگ ہوگی۔
جنوبی پنجاب کیلئے نئے صوبے کا قیام سرائیکی بیلٹ کیلئے ایک خوشخبری ہے اور پاکستان کے غریب ترین اضلاع میں غربت کی کمی کی تحریک بھی وہ شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
عمران خان کے پہلے 100 دن کیلئے دیا گیا ایجنڈا اگرچہ خوبصورت خیالات کی عمدہ ترتیب ہے۔ لیکن اگر عمران خان نے پہلے 100 دن میں یہ تاثر پیدا کردیا کہ احتساب سب کیلئے تو لوگ ان کے باقی نعرے بھول کر ان کی ”امامت“ کو قبول کرلیں گے۔ جیسا کہ چیئرمین نیب پہلے ہی نیب کو مؤثر طریقے سے کرپشن کے خلاف استعمال کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں اگر چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کے ہاتھ عمران خان نے اقتدار میں آکر اور زیادہ مضبوط کردیئے تو عمران خان پہلے سے بھی زیادہ مضبوط بن کر ابھریں گے۔
تحریک انصاف اس وقت ایک ”سیاسی ٹوکرے“ کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اس ”ٹوکرے“ کے نیچے کئی گندے پرندے بھی آچکے ہیں نیب اگر ان گندے لوگوں پر ہاتھ ڈالے گی تو عمران خان کو ان کی ڈھال نہیں بننا چاہیے بلکہ کرپشن کے ثبوت دیکھ کر عمران خان خود ایسے لوگوں کو پکڑ پکر کر خود نیب کے حوالے کرنا چاہیے۔ پہلے 100 دن میں عمران خان کو خود احتسابی سب سے بڑا ایجنڈا رکھنا چاہیے۔ باقی کام 1000 دن میں بھی ہوگئے تو عوام خوش ہوجائیں گے۔