شہ رگ کیلئے ایک بیٹھک
شمشاد مانگٹ
مقبوضہ کشمیر کو پابند سلاسل کئے ہوئے 200دن ہوچکے ہیں۔حکومت پاکستان سمیت پاکستان کے عوام اور کشمیر کے جرات مند شہریوں نے اب تک نہ صرف مودی کے مظالم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے بلکہ انہیں بھرپور طریقے سے بے نقاب بھی کیا ہے۔موجودہ حکومت کو جہاں ایک طرف مہنگائی اور معاشی بدحالی جیسے مشکل ترین چیلنج کا سامنا ہے وہیں اس حکومت کو پاکستان کی شہ رگ کو جبر کے پنجوں سے آزاد کروانے کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔
راجہ فہیم کیانی اور حریت پسند رہنما الطاف بٹ نے ان 200دنوں میں پاکستان سمیت سمندر پار مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں اجاگر کیا ہے۔راجہ فہیم کیانی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ 200دنوں میں انہوں نے24گھنٹوں میں سے 20 گھنٹے مسئلہ کشمیر کو بیرونی دنیا کے سامنے لانے میں صرف کئے ہیں اور اس جدوجہد میں الطاف بٹ بھی ساتھ ساتھ ہیں۔دو روز پہلے راجہ فہیم کیانی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے اور مسئلہ کشمیر کو مزید موثر انداز میں عالمی سطح پر اجاگر کرنے کیلئے اسلام آباد میں ایک بیٹھک منعقد کی گئی۔
اس بیٹھک میں سینئر صحافیوں طارق چوہدری، افضل بٹ،اسلم خان بیگ راج، ڈاکٹر مرتضی،سجاد ترین،عقیل ترین سمیت دیگر احباب نے شرکت کی۔شہ رگ کی آزادی کے حوالے سے بلائی گئی اس بیٹھک میں راجہ فہیم کیانی نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہم پاکستان کی شہ رگ کو ظلم و استبداد کے پنجوں سے آزاد کروانے کیلئے برطانیہ اور یورپ میں آواز اٹھا رہے ہیں اور اس جدوجہد میں ہمارے کئی دوستوں نے بہت ہی اہم کردارادا کیا ہے۔
راجہ فہیم کیانی کا کہنا تھا کہ ہماری اس جدوجہد کا ثمر یہ ہے کہ برطانیہ کے وہ ممبر پارلیمنٹ جو بھارتی کے حامی سمجھے جاتے تھے وہ بھی مودی کے اس ظلم پر سراپا احتجاج دیکھے گئے ہیں اور پوری دنیا میں مظلوم کشمیریوں کا دکھ محسوس کیا جارہا ہے۔لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح وزیراعظم عمران خان نے ہر فورم پر ببانگ دہل اہل کشمیر کا مقدمہ لڑا ہے.
اس انداز میں ہمارے پارلیمنٹیرینز نے آواز بلند نہیں کی۔کشمیر کی آزادی بہت بڑا مقصد ہے اور یہ کسی ایک جماعت کا منشور نہیں ہے بلکہ آزاد کشمیر اور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس کو اپنے منشور کا حصہ بنائے ہوئے ہیں،اس لئے مسئلہ کشمیر پر تمام جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کو وفود میں تقسیم کرکے یورپ سمیت پوری دنیا میں بھیجا جانا چاہئے جہاں نہ صرف یہ لوگ وہاں کے بااثر لوگوں سے مل کر اس نازک مسئلے کی طرف توجہ کرائیں بلکہ کشمیریوں اور پاکستانیوں سے ملکر وہاں ریلیاں نکالی جائیں۔
اس موقع پر الطاف بٹ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کی آزادی کیلئے ان 200دنوں میں حکومت پاکستان نے بھرپور اقدامات کئے ہیں مگراس میں مزید بہتری لائی جاسکتی ہے۔مثال کے طور پر پاکستانی طرز کی ہی ایک اور کشمیر کمیٹی بنائی جائے جو کہ آزاد کشمیر کے ممبران پر مشتمل ہو اور پھر یہ دونوں کشمیر کمیٹیاں مل کر اس جدوجہد کا جھنڈا بلند کریں۔
الطاف بٹ کا کہنا تھا کہ کشمیر اور پاکستان لازم اور ملزوم ہیں۔نریندر مودی نے5اگست کا اقدام کرکے جنگ شروع کی ہے۔اصولی طور پر اقوام متحدہ کو از خود اس معاملے میں مداخلت کرکے محبوس کئے گئے کشمیریوں کو آزاد کروانا چاہئے تھا لیکن اقوام متحدہ نے ابھی تک اس سارے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے جو کہ ناکافی ہے۔
الطاف بٹ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے جولائی 2019ءمیں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر جو تقریر کی تھی اس سے کشمیریوں کے حوصلے بلند ہوئے اور اب سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ جب پاکستان کے دورے پر آئے تو وزیراعظم نے ایک بار پھر اقوام متحدہ کے کردار پر سوال اٹھایا جو کہ ایک جرات مندانہ اقدام تھا۔
الطاف بٹ نے کہا کہ5اگست 2019ءکے نریندر مودی ایکشن نے پوری قوم کو متحد کردیا ہے اور اس وقت ہمیں متحد ہوکر اس جنگ کو جیتنے کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد یہ ہے کہ نریندر مودی نے بھارت میں تمام اقلیتوں سمیت نچلی ذات کے ہندو¶ں سے بھی پنگا لے رکھا ہے۔
لہذا پاکستان کو اس صورتحال سے ہر صورت فائدہ اٹھانا چاہئے کیونکہ اگر پاکستان نے اس وقت ہمت نہ دکھائی تو پھر پانی کیلئے تو جنگ ہرصورت لڑنا ہی پڑے گی۔نریندر مودی کے ارادے خطرناک ہیں اور وہ اپنی سیاسی قوت کے غرور میں پاگل پن کی حدوں کو چھو رہا ہے۔اس لئے حکومت پاکستان مقبوضہ کشمیر پر اپنے دعوے کو مزید وسیع کرے کیونکہ اب تو وہاں کے وہ لوگ جو کل تک بھارت کے حامی تھے اب دو قومی نظریہ کو درست قرار دے رہے ہیں۔
الطاف بٹ نے بھی اس بات پر شدت سے زور دیا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے وفود کو مسئلہ کشمیر لیکر ہر فورم پر جانا چاہئے اور بیرون ملک ہمارے سفارت خانوں کو بھی متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ ہمارا مقابلہ ایک مکار اور چالاک دشمن سے ہے۔اس لئے جتنا بھی دباؤ بیرونی دنیا سے بڑھے گا اتنا ہی کشمیر کی آزادی کی منزل قریب آئے گی اور شہ رگ آزاد ہونے سے پاکستان کو سانس لینے میں آسانی ہوگی۔