سڑکیں نہ بنائیں
شہر یار خان
لوگوں کو اپنا حق مانگنے کا ڈھب بھی نہیں، کوئی جب یہ کہتا ہے ہماری ضرورت پینے کا پانی ہے میٹرو نہیں۔۔ یا پھر کہ ہماری ضرورت ہسپتال ہے سڑک نہیں، یا پھر پل بنانے کا کیا فائدہ ہمیں تو قبرستان چاہئیں۔ یہ کیا بات ہوئی؟۔۔
اس پر مجھے وہ لطیفہ یاد آ گیا جس میں ایک دوست نے موٹر سائیکل خریدی تو دوسرے نے کہا یار یہ کیوں لے لی؟،بھینس خرید لیتے۔۔
وہ بولا: یار مجھے کالج جانا ہوتا ہے بھینس پر بیٹھ کر کالج جاتا میں کتنا عجیب لگتا۔۔۔پہلا بولا اس سے بھی زیادہ عجیب تو اس وقت لگے گا جب تو موٹر سائیکل کا دودھ دوہنے سڑک پر بیٹھے گا۔
اسی طرح جب دوست یہ کہیں کہ ہمیں موٹر ویز اور میٹرو نہیں چاہیئے۔ پینے کے صاف پانی کے لیے ڈیم چاہئیں۔ میں نے ان سے عرض کیا حضور ڈیم پر بیٹھ کر آپ دفتر جاتے بہت عجیب لگیں گے تو کہنے لگے ایوب خان نے سارے ڈیم بنائے تھے۔
میں نے انہیں بتایا سب ڈیم ایوب خان نے نہیں بنائے ، اور پھر پینے کا صاف پانی بھی ان ڈیموں سے نہیں آتا۔ دوسری بات یہ کہ نیلم جہلم ڈیم کے علاوہ بھی کئی اور ڈیم تعمیر کیے گئے ہیں جو ایوب خان نے ہرگز نہیں بنائے۔
ویسے بھی یہ کیا طریقہ ہوا کہ آپ نے مانگنا ہو تو اللہ سے یہ کہیں کہ یا اللہ مجھے گاڑی چاہئے صرف گاڑی اس کے ساتھ مجھے گھر کی کوئی ضرورت نہیں، میں کرایہ کے گھر میں رہ لوں گا۔ہمیں مانگنے کا ڈھنگ آنا چاہئے اور اگر یہ سلیقہ نہ آتا ہو تو پھر ہمارے ساتھ ایسے ہی ہوتا رہے گا جیسے ہو رہا ہے۔
تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی کی فراہمی سمیت آپ کو سر چھپانے کے لیے باعزت رہائش کی ذمہ داری آئین کی رو سے حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے۔ جب ہمیں کچھ چاہئے تو ہمیں یہ نہیں کہنا چاہئے کہ میٹرو کی ضرورت نہیں ہے۔
میٹرو کی ضرورت کا احساس انہیں ہے جو صبح سویرے سکول، کالج، دفتر یا دکان پر جانے کے لیے پرائیویٹ ویگن یا بس کے دھکے کھاتے تھے۔ ویگن کی فرنٹ سیٹ پر جہاں دو افراد بٹھانے کی گنجائش ہوتی وہاں ہماری ماؤں بہنوں کو تین تین کی تعداد میں بٹھایا جاتا۔
قوم کی ان ماؤں بہنوں اور بیٹیوں سے پوچھا جائے کیا آپ کو ان جنگلہ بسوں کی ضرورت ہے یا نہیں؟۔ وہ بتائیں گی کہ انہیں یہ منظور ہے کہ پانی کا ٹینکر پانچ ہزار کا خرید لیا جائے لیکن یہ منظور نہیں کہ ویگن کا ڈرائیور گیئر لگاتے ہوئے ان کی ٹانگوں سے ہاتھ ٹکرائے۔ اس وقت ان بہنوں کو چلو بھر پانی بھی نہیں ملتا۔
پہلے بھی ایک بار ایک تخیلاتی کالم نظروں سے گزرا تھا جہاں ایک شخص نے فرضی کہانی بیان کی کہ ایک شخص لاہور کی کھلی سڑکوں پر اپنے بیٹے کو لے کر مختلف ہسپتالوں میں پھرتا رہا لیکن ہسپتال میسر نہیں تھے اور اس کا بچہ مناسب طبی سہولیات نہ ملنے کے سبب دم توڑ گیا۔
اس کالم میں کہاگیا تھا کہ کھلی سڑکوں کی ضرورت نہیں ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔میری نظر میں اگر ہسپتال ڈھیر سارے ہوں لیکن سڑکیں نہ ہوں تو پھر کالم یہ ہوتا کہ ہسپتال زیادہ ہونے کا کیا فائدہ جب ان تک پہنچنے کے لیے سڑک ہی نہ ہو۔ڈاکٹرز کی حرکتوں پر تو ایک الگ کالم چاہئے لیکن ہسپتال کے ساتھ ساتھ سڑک بھی مانگئے۔
اگر ہسپتال ضروری ہیں تو ہسپتالوں تک پہنچنے کے لیے سڑک بھی بہت ضروری ہے، سڑک کی اہمیت کا پوچھنا ہو تو آزاد کشمیر کے علاقہ کھاوڑا کے گاؤں جاوا کے لوگوں سے پوچھیں جہاں ہماری بہنوں بیٹیوں کو چارپائیوں پر ڈال کر کچی پگڈنڈیوں سے گزرتے پیدل ہسپتال پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس کوشش میں اکثر زچگی راستے میں چارپائی پر ہو جاتی ہے یا وہ بدنصیب بچہ دنیا میں آنے سے قبل ہی دم توڑ دیتا ہے۔ ان ماؤں کے سامنے جب کوئی یہ کہے کہ سڑک نہیں چاہئے ہمیں تو ہسپتال بنا کر دیں تو وہ کہیں گی ہسپتال پہنچنے کے لیے سڑک بھی ضروری ہے، ہم سڑکوں پر بچوں کی پیدائش نہیں چاہتے۔
گاڑی دفتر دے لیکن تنخواہ نہ دے تو کیا آپ کا گزارا چل جائے گا؟۔ نہیں چل سکتا ، اس لیے میری ان تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ مانگنا ہے تو سب مانگیں، ادھورے خواب کیوں؟۔ خواب تو مکمل دیکھیں کیونکہ تعبیر پوری بھی ان کو ہی ملتی ہے جو خواب پورا دیکھتے ہیں۔
کسی ملک میں بھی جائیے، وہاں میٹرو بھی ہے، لوکل ٹرین بھی ہے، سڑک بھی ہے، ہسپتال بھی ہے اور پینے کا صاف پانی بھی اور اس کے بعد اگر کسی باعث وہ گھر کا خرچہ اٹھانے سے قاصر ہوں تو حکومت ان کی امداد بھی کرتی ہے۔
وہاں اسے سوشل سیکورٹی کہا جاتا ہے جو ہمارے مذہب میں بیت المال کے نام سے مشہور ہے۔ ہمارا نظام انگریزوں نے اپنا لیا ہے جبکہ ہم اس نظام سے مکمل فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔
برطانیہ سمیت مختلف مہذب ممالک میں ٹیکس ادا کرنے والوں کو صحت اور بنیادی تعلیم کی فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے جبکہ ہم تنخواہ دار لوگ ٹیکس دے کر بھی ان بنیادی سہولیات سے محروم ہوتے ہیں، اس لیے کہ ہم تو خواب بھی ادھورے دیکھتے ہیں۔
کیوں معذرت خواہانہ انداز میں یہ کہا جائے کہ جناب آپ کا احسان ہو گا ہمیں اگر آپ یہ سڑک اور میٹرو نہ دیں بس کسی طرح پانی کی سہولیات فراہم کر دیں ۔۔۔ کوئی حکومت یہ بنیادی ضروریات فراہم کرے تو یہ ہم پہ احسان ہرگز نہ ہو گا بلکہ یہ ہمارا حق ہے۔
ہمارا نعرہ ایسا ہونا چاہیئے کہ شاعر جسے کہہ گیا ہے کہ
ہم محنت کش اس دنیا سے جب اپنا حصہ مانگیں گے
اک باغ نہیں ایک کھیت نہیں ہم ساری دنیا مانگیں گے