موکلات کی حکومت
شمشاد مانگٹ
پاکستان میں ہر کام بھیڑ چال کا شکار نظر آتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے گلی محلوں اور مارکیٹوں میں پبلک کال آفس کھولنے کا دھندہ عروج پر تھا چنانچہ بے روز گاروں نے ہر طرف مشرومز کی طرح واش رومز کی شکل میں پی سی او کھول لئے۔حتیٰ کہ اس دور کے جنرل پرویز مشرف نے اپنے اختیارات کو مزید تقویت دینے اور وردی کو اپنی کھال قرار دینے کے لئے پارلیمنٹ سے اپنے لئے اپنا الگ ہی ”پی سی او“منظور کروا لیا تھا۔ عوامی ”پی سی او“ اور جنرل پرویز مشرف کے ”پی سی او“ میں جو قدر مشترک تھی وہ دونوں کے روز گار میں اضافہ سے متعلق تھی۔ بہر حال جنرل مشرف کے ”پی سی او “ کا پورا نام پروویژنل کانسٹیٹیوشنل آرڈر تھا۔
اسی طرح ہمارے حکمران طبقے میں ایک ٹرینڈ کچھ عرصہ سے یہ بھی آیا کہ اپنی حکومتوں کو ”مو کلات“ کے ذریعے چلایا جائے اور مخالفین کی باریک چالوں کا علم” موکل “کے ذریعے حاصل کر کے بازی پلٹ دی جائے۔ سابق صدر آصف علی زرداری جن دنوں میمو گیٹ سکینڈل میں اچھی طرح گھرے ہوئے تھے اور اپوزیشن سپریم کورٹ کے ذریعے انہیں بری طرح پریشان کر رہی تھی انہی دنوں انہوں نے اپنے پیر اعجاز کی خدمات حاصل کی تھیں۔ اور پیر اعجاز کو ایوان صدر میں مستقل جائے پناہ ملی ہوئی تھی جہاں بیٹھ کر وہ اپنے ”موکلات“ کے ذریعے آصف علی زرداری کی توقعات پوری کیا کرتے تھے ۔
دلچسپ اور حیران کن بات یہ ہے کہ موکل اگر ایوان صدر یا بنی گالہ میں ڈیوٹی سرانجام دے رہا ہو تو مخالفین پر ہیبت طاری رہتی ہے کہ کہیں ان کی سازشیں موکل کے ذریعے ”لیک“ نہ ہوجائیں اور موکل حکومت کے استحکام کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ موکل سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ اور یا پھر کسی ما تحت عدالت میں نظر آ جائے تو انتہائی بے بس اورلا چار نظر آتا ہے۔
سپریم کورٹ میں آ کرسینئر وکیل اپنے موکل کی بار بار بے بسی کا ذکر اس طرح کر رہے تھے اور عدالت کو بتا رہے تھے کہ جناب والا میرا موکل اپنی سات نسلوں سے اس رقبے کا مالک رہا ہے لیکن 20 سال سے علاقے کے رسہ گیرنے اس کی زمین پر قبضہ جمارکھا ہے۔ فاضل عدالت نے اس وکیل کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ ہم نے ریکارڈ کو دیکھنا ہے اور ریکارڈ بتا رہا ہے کہ زمین آپ کے موکل کی نہیں ہے موکل بوجھل قدموں کے ساتھ چلتا ہوا بتا رہا تھا کہ پہلے زمین گئی اور پھر مقدمے پر جمع پونجی بھی لگ گئی ۔
ہماری عدالتوں کے احاطے ایسے ہزاروں بلکہ لاکھوں موکلات سے روزانہ بھرے ہوتے ہیں جہاں انصاف کی دیوی یاتو دیکھنا پسند نہیں کرتی یا پھر انہیں دیکھ کر دانستہ آنکھیں بند کر لیتی ہے تا کہ موکلات کو وکلاءکے ذریعے یقین دلایا جا سکے کہ انصاف اور قانون اندھے ہوتے ہیں۔
بہر حال پاکستان میں ایک طرف غریب اور امیر کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ بڑھ گیا ہے۔ اور دوسری طرف ایوان اقتدار اور ایوان عدل کے موکلات کے درمیان زمین و آسمان کا فرق پیدا ہو چکا ہے۔ موجودہ حکومت کا سارا دارومدار بھی ”موکلات“ پر ہی ہے۔ اسلام آباد کے شہریوں کو بنی گالہ کی کسی بھی اونچی جگہ سے دھواں اٹھتا نظر آ جائے تو فوراً پکار اٹھتے ہیں کہ خاتون اول اپنے ”خان اعظم “کی حکومت کے لئے موّکلات کی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کر رہی ہے۔ کچھ لوگ تو ابھی تک وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ”موّکل “ ہی سمجھتے ہیں کیونکہ ان کی چال ڈھال اور بول چال ایک مستند موّکل جیسی ہے۔
ابھی تک ہمارے ہاں نصیب اپنا اپنا اور پیر اپنا اپنا کا فارمولا چل رہا ہے لیکن وزیراعظم عمران خان چونکے از خود اپنے ہی گھر میں روزانہ کی بنیاد پر روحانی طاقت کا عملی مظاہرہ دیکھتے ہیں اس لئے انہیں چاہئے کہ وفاق اورچاروں صوبوں میں گزٹڈ پیروں کی بھرتی بھی کر جائیں ۔اس کا ایک تو فائدہ یہ ہوگا کہ چاروں صوبوں سے خفیہ رپورٹس سیکنڈز میں بنی گالہ پہنچا کریں گی اور دوسرا اور بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ آج کے بھرتی کئے ہوئے پیر کل کو کام آئیں گے۔ عمران خان جب اپوزیشن میں ہوں گے تو آج بھرتی کئے ہوئے پیر ”موکلات“ کے ذریعے انہیں حکومت کی پل پل کی خبریں بھی دیا کریں گے اور اس وقت کی حکومت کے لئے مسائل بھی پیدا کرتے رہیں گے۔
سابق صدر آصف علی زرداری جس طرح کماتے ہیں اس طرح شاہ خرچ بھی ہیں وہ دوستوں کو بھی نوازتے ہیں اور اپنے پیر پر بھی کئی مہربانیاں کر نے گئے پیر اعجاز کے ایک مرید کو اسلام آباد میں مجسٹریٹ بھی بھرتی کرنا اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیکن وزیراعظم عمران خان اس معاملے میں کافی ”ہاتھ کھینچ“ شخص واقع ہوئے ہیں ۔وزیراعظم عمران خان نے کسی پیر کی خدمات حاصل کرنے کی بجائے اپنی ہی پیرنی کو شرعی سپرداری میں لے کر ہر قسم کے اخراجات سے بھی جان چھڑالی اور جہیز میں وزیراعظم کو اہلیہ کے ساتھ دوموکلات بھی مل گئے۔
ہمارے ہاں”موکلات“ کا کردار بہت اہم ہو چکاہے۔ اور جہاں تک شریف فیملی کا تعلق ہے تو وہ موکلات کی بجائے ”خلائی مخلوق“پر یقین رکھتے ہیں اسی سے لڑتے ہیں اس سے پیار کرتے ہیں اور اس سے ساری ڈیلیں کرتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان اب تک تو پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے نعرے لگا رہے ہیں لیکن بنی گالہ میں جس طرح سے موکلات سے کام لیاجا رہا ہے اس سے ممکن ہے کہ وہ کسی بھی وقت حضرت سلیمانؑ کی طرزِ حکومت کے قیام کا بھی اعلان کر دیں کیونکہ یہ” موکلات“ کے سہارے چلنے والی حکومت ہے۔عثمان بزدار کی کارکردگی دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ پنجابی کی یہ کہاوت سچی اور حقیقی ہے ” منہ نہ متھا جن پہاڑوں لتھہ“۔یہاں پہاڑوں سے مراد بنی گالہ کی پہاڑی ہے۔