ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ 2017 تک کی ہے، 2019 کی نہیں، اعلامیہ
فوٹو : فائل
اسلام آباد(ویب ڈیسک)بدعنوانی سے متعلق ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کو سیاسی جماعتوں کے منفی ردعمل کے بعد وضاحت جاری کرنا پڑ گئی،رپورٹ کی غلط تشریح کی گئی 2019 کی ابھی رپورٹ آنا باقی ہے.
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ پاکستان میں کرپشن میں اضافہ نہیں ہوا اور موجودہ حکومت کے بدعنوانی کےخلاف اقدامات قابل ستائش ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان میں کرپشن رپورٹ سے متعلق ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے چیئرمین سہیل مظفر کے وضاحتی میں کہا ہے کہ انڈیکس میں شامل ڈیٹا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا نہیں ہوتا.
رپورٹ میں 13 مختلف ذرائع کے اعداد و شمار شامل ہوتے ہیں، پاکستان کا اسکور کم ہونا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کااسٹینڈرڈ مارجن بدستور 2.46 ہے۔
سہیل مظفر نے کہا ہے کہ رپورٹ کے لیے ڈیٹا 2015 سے2017 تک لیا گیا، 2019 کا ڈیٹا رواں سال جاری کیا جائے گا، حکومت کے بدعنوانی کے خلاف اقدامات قابل ستائش ہیں، موجودہ حکومت میں نیب کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے، کچھ اخبارات اور سیاستدانوں نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو غلط بیان کیا۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی درجہ بندی میں کمی بدعنوانی میں کمی یا اضافے کی نشاندہی نہیں کرتی کیونکہ یہ اس حوالے سے طے شدہ معیار کے اندر موجود ہے۔
بدعنوانی پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے کی رپورٹ کچھ دن پہلے سامنے آئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کرپشن کے خلاف حکومت کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے باوجود پاکستان کی کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں درجہ بندی تنزلی کا شکار ہوئی اور عالمی درجہ بندی میں 3 درجہ تنزلی کے بعد پاکستان 120ویں نمبر پر پہنچ گیا۔
وضاحتی اعلامیے میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کہا کہ وہ ریکارڈ کو صحیح رکھنا چاہتے ہیں اور کرپشن پرسیپشن انڈیکس (سی پی آئی) 2019 پر غلط رپورٹنگ سے متعلق وضاحت دینا چاہتے ہیں۔
میڈیا کے کچھ حصے برٹلس مین اسٹف ٹنگ ٹرانسفارمیشن انڈیکس 2020 کی درجہ بندی کے بجائے 2018 انڈیکس کے ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے غلط رپورٹنگ کررہے ہیں۔
اس میں کہا گیا کہ برٹلس مین اسٹف ٹنگ ٹرانسفارمیشن انڈیکس 2020 کا ڈیٹا اب تک منظر عام پر نہیں لایا گیا اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے پاس خصوصی طور پر رپورٹ کی تیاری کے لیے موجود تھا۔
اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کسی بھی طریقے سے سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت کو سب سے زیادہ کرپٹ نہیں کہا اور نہ ہی موجودہ حکومت کو دوسری کرپٹ ترین حکومت کہا۔
اعلامیہ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومتوں کو شفاف ترین بھی نہیں کہا گیا تھا،
یاد رہے وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ جس ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے بل بوتے پر موجودہ حکومت کی کارکردگی صاف اور شفاف نہ ہونے کے فتوے لگائے جارہے ہیں اس ادارے کی اپنی ٹرانسپیرنسی سوالیہ نشان ہے۔
معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ٹرانسپیرنسی جن اعداد و شمار کی بنیاد پر اپنی فہرست مرتب کرتی ہے اسے ترتیب دینے والے افراد اور جہاں سے یہ اعداد و شمار اکٹھا کیا جارہا ہے وہ گٹھ جوڑ سامنے آنا ضروری ہے۔
فردوس عاشق ایوان کے مطابق اس رپورٹ کو کون تسلیم کرے گا کہ سب سے زیادہ بدعنوانی مشرف دور میں ہوئی اس کے بعد عمران خان کے دورِ حکومت کو زیر بحث لایا گیا جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور پھر مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت کو درج کیا گیا۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنے بیان میں کہا کہ ‘حقیقت یہ ہے کہ سی پی آئی 2019 نے پاکستان یا کسی اور ملک کے لیے ایسی درجہ بندی جاری نہیں کی۔
بیان میں کہا گیا کہ سی پی آئی میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا اپنا ذاتی ڈیٹا نہیں ہوتا اور اس کی تیاری میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کا کوئی کردار نہیں، نہ ہی انہوں نے اس حوالے سے کوئی ڈیٹا دیا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ ‘سی پی آئی 12 مختلف اداروں کے 13 مختلف ذرائع سے ڈیٹا جمع کرتے ہیں جو پبلک سیکٹر کرپشن کی سطح پر کاروباری افراد اور ملکوں کے ماہرین کی بدعنوانی کی معلومات فراہم کرتی ہے۔
اس میں کہا گیا کہ سی پی آئی میں شامل 13 ذرائع میں سے ہر ایک کے اسکورز ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے معیاری ہے اور اس میں شامل ڈیٹا کو جمع کرنے کے سافٹ ویئر استعمال کیا جاتا ہے۔