سیاست میں ۔شاعرانہ۔ حملے
شمشاد مانگٹ
پاکستانی سیاست جس طرح کرپشن کی لپیٹ میں ہے بالکل اتنی ہی مقدار میں شاعرانہ سیاست بھی پھل پھول رہی ہے۔ سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو میاں نواز شریف سے شکوہ ہے کہ انہیں وفاؤں کا اچھا ”پھل“ نہیں دیا گیا جبکہ میاں نواز شریف اور محترمہ مریم نواز کو چودھری نثار سے گِلہ ہے کہ ان کی وفاؤں کے ”پھول“ کے ساتھ کانٹے زیادہ تھے اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت اکثر اس پھول کی خوشبو سے مستفید ہوتے ہوئے اس کے ساتھ موجود کانٹوں سے زخمی ہوئی۔
میاں نواز شریف ، میاں شہباز شریف اور اب مریم نواز کے ساتھ بھی مستقل”شاعرانہ“ مشکل یہ پیدا ہو گئی ہے کہ انہیں جو بھی مشیر شعر کا ترجمہ پڑھ کر سمجھا دیتا ہے اور ساتھ ہی یہ ”نصیَحت“ بھی کر دیتا ہے کہ یہ شعر آپ کے فلاں مخالف کے سینے میں لگے گا تو مسلم لیگ(ن) کے یہ تینوں بڑے اس شعر کو ”زہریلا تیر“ بنا کر اپنے مخالف پر داغ دیتے ہیں اور اس بات کی بھی پرواہ نہیں کرتے کہ مدمخالف کے پاس اس سے کہیں زیادہ زہریلا تیر اور وہ بلا کا نشانہ باز ہو سکتا ہے ۔ ماضی میں شیخ رشید میاں نواز شریف کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی ہوا کرتے تھے اور میاں نواز شریف مخالفین کے کیمپوں پر ”تیراندازی“ بذریعہ شیخ رشید ہی کیا کرتے تھے اور شیخ رشید کی نشانے بازی کی داد ان کے سیاسی مخالفین اب بھی دیتے ہیں۔گزشتہ پانچ سال میں شیخ رشید نے جتنے کامیاب نشانے رائیونڈ محل کے مکینوں پر لگائے ہیں اتنے نشانے کوئی دوسرا سیاستدان نہیں لگا سکا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ شیخ رشید احمد شریف برادران کی تمام کمزوریوں اور ”کمین گاہوں“ سے بخوبی آگاہ تھے ۔
گزشتہ دو سال سے محترمہ مریم نواز اور سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید مسلسل میاں نواز شریف کو چودھری اعتزاز احسن کی زبان میں چودھری نثار علی خان کی ”بے وفائیوں “ سے آگاہ کر رہے تھے۔ میاں نواز شریف کو چودھری نثار علی خان سے بددل کرنے کے لئے محترمہ مریم نواز نے صبح ، دوپہر ، شام کان بھرنے کی زود اثر ترغیب پر عمل کیا اور اب مسلم لیگ(ن) اور چودھری نثار علی خان کا تعلق کچے دھاگے سے بندھا ہوا نظر آ رہا ہے ۔ چودھری نثار علی خان نے گزشتہ روز ایک بار پھر گزرے وقت کا بادل نخواستہ خیال کرتے ہوئے باادب جواب میں کہا کہ
”ادب کی بات ہے ورنہ منیر سوچوتو!
جو شخص سنتا ہے وہ بول بھی سکتا ہے“
چودھری نثار علی خان نے فی الحال بولنے کی وارننگ دی ہے اور ساتھ ہی مسلم لیگ(ن) اور شریف برادران کے احترام کا ذکر بھی کیا ہے لیکن یہ بات اب طے ہے کہ میاں نواز شریف اور محترمہ مریم نواز کے دل میں چودھری نثار کا کوئی احترام نہیں ہے۔ چودھری نثار علی خان کو میاں نواز شریف کے اس شعر نے اتنا دل گرفتہ نہیں کیا جتنا مریم نواز کی پنجابی شاعری نے چودھری نثار کو ”مورچہ“سنبھالنے پر مجبور کیا۔ میاں نواز شریف نے گزرے وقت کا خیال کرتے ہوئے صرف توقع کے اٹھ جانے اور گِلہ نہ کرنے کا عندیہ دیا تھا جبکہ محترمہ مریم نواز نے بغیر سوچے سمجھے حضرت میاں محمد بخش کا ایک شعر اپنے ترکش میں پرو کر چودھری نثار پر داغ دیا۔یہ سیاسی تیر کچھ اس طرح سے تھا
”اصلاں نال جے نیکی کریئے، نسلاں تک نہیں پُلدے
بد اصلاں نال جے نیکی کریئے، پٹھیاں چالاں چلدے “
چودھری نثار علی خان کو اصولی طور پر چاہئے کہ اس شعر کی وضاحت کے لئے مسلم لیگ کے سینئر راہنماؤں پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دیں تاکہ یہ طے ہو سکے کہ شعر خود شریف برادران کے لئے میاں محمد بخش نے طویل عرصہ پہلے لکھا تھا یا پھر چودھری نثار علی خان پر یہ شعر پورا اترتا ہے ۔
چودھری نثار علی خان یہ ثابت کرنے کے لئے کہ یہ شعر شریف برادران کے لئے لکھا گیا تھا ۔ اعجاز الحق کو بھی گواہ کے طور پر پیش کر سکتے ہیں ۔ ہمایوں اختر خان بھی ان کا ساتھ دینے کے لئے ضرور آگے آئیں گے اور گجرات سے چودھری برادران بھی اس پنجابی شعر کی تعریف پوری فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس پنجابی کلام کی جامع تعریف کے لئے چودھری نثار علی خان کو جنرل غلام جیلانی کے اہلخانہ بھی بہت کچھ فراہم کر سکتے ہیں اور چودھری نثار علی خان چونکے خود فوجی پس منظر کے حامل ہیں اس لئے ذاتی تعلقات کے ذریعے 1985 ء سے 1999 تک اعلٰی فوجی افسران کو بھی متاثرہ فریق کے طور پر بلا کر ان کے بیان قلمبند کروائیں تاکہ مستقل طور پر اس بات کا فیصلہ ہو جائے ۔ ”اصلاں “ والے کون ہیں اور ”بداصلاں“ کا استعارہ کس کے لئے استعمال کیا گیا۔
چودھری نثار علی خان نے جواب دیتے ہوئے اگرچہ ”ہتھ ہولا“ رکھا ہے اور اگر وہ اپنی طبیعت کے عین مطابق جواب دیتے تو وہ حضرت سلطان باہو کا کلام پڑھ کر شریف فیملی کے چودہ طبق روشن کر سکتے تھے ۔محترمہ مریم نواز کے بلاسوچے سمجھے ”شاعرانہ“ سیاسی حملے کے جواب میں اگر چودھری نثار علی خان حضرت سلطان باہو کا یہ کلام پریس ریلیز کی شکل میں جاری کر دیتے تو پیروں سے پہلے ناطہ توڑ لینے والی شریف فیملی عین ممکن تھا کہ مزاروں پر ”ڈارٹیکس“ لگا دیتی ۔ حضرت سخی سلطان باہو نے میاں نوازشریف اور چودھری نثار علی خان تعلقات کی بہت ہی خوبصورت الفاظ میں منظر کشی کی ہے۔
”نال کو سنگی سنگ نہ کریئے
کُل نوں لاج نہ لایئے ہو“
”تونبے تربوز مول نہ ہوندے
توڑے توڑ مکے لے جایئے ہو“
”کاواں دے بچے ہنس نہ ہوندے
توڑے موتی چوگ چگایئے ہو“
کوڑے کھونہ میٹھے ہوندے باہو
توڑے سومن کھنڈدا پائیے ہو“
چودھری نثار علی خان یہ شاعرانہ کلام پیش کر کے شریف فیملی کے ہوش ٹھکانے لگا سکتے تھے کیونکہ 8 سال مکہ مکرمہ میں گزار کر بھی جھوٹ بولنے اور خزانے لوٹنے کی عادت نہیں گئی اور ان کے بچوں کو بے شک سونے کے تاج پہنائیں یا موتی ڈال کر ”قیمے والے“نان کھلائیں مگر یہ ہنس نہیں ہو سکتے۔ چودھری نثار علی خان نے گویا یہ خوبصورت کلام پیش کرنے سے پہلے یقینناً میاں شہباز شریف سے جڑے آخری تعلق کو ضرور سوچا ہو گا ۔دیرینہ تعلق کا ادب ملحوظِ خاطر نہ ہوتا تو چودھری نثار علی خان محترمہ مریم نواز کے شاعرانہ تبصرے پر یہ ردعمل بھی دے سکتے تھے کہ جن کی طبیعت خراب ہو ان کے ساتھ تو گزارہ ہو سکتا ہے لیکن جن کی تربیت خراب ہو ان کے ساتھ گزارہ ممکن نہیں ہے ۔ بہر حال مسلم لیگ(ن) کی اعلٰی قیادت جس تیزی سے چودھری نثار علی خان سے آنکھیں بدل رہی ہے ایسا لگتا ہے کہ چودھری نثار علی خان کو میڈیا بلا کر جلد ہی محسن نقوی کا یہ شعر سنانا پڑے گا ۔
”خودبخود چھوڑ گئے ہیں تو چلو ٹھیک ہوا
اتنے احباب کہاں ہم سے سنبھالے جاتے
ہم بھی غالب کی طرح کوچئہ جاناں سے محسن
نہ نکلتے تو کسی روز نکالے جاتے “
مسلم لیگ(ن) کی مجموعی صورت حال پر نظر ڈالی تو حضرت میاں محمد بخش کا یہ شعر بھی اس کی حالت بیان کرتا نظر آتا ہے ۔
”جھوٹ داسواد ہتھو ہتھ
سچ دا گاہک ٹاواں ٹاواں
شکلوں سارے بندے لگدے
وچوں بندہ ٹاواں ٹاواں “
حضرت پیر نصیرالدین نصیر نے شائد چودھری نثار علی خان کے لئے ہی شعر لکھا تھا۔
”بے سبب ترکِ تعلق کا بڑا رنج ہوا
لاکھ رنجش ہی سہی ایک عمر کا یارانہ تھا“
آنے والے دنوں میں اس بات کا کافی امکان ہے کہ میاں نواز شریف ، محترمہ مریم نواز اور پرویز رشید ، چودھری نثار علی خان پر سیاسی حملوں کے لئے ہزاروں شعر بیک وقت یاد رکھنے والے کسی ” ادبی مشیر “ کی خدمات حاصل کرلیں جو بوقت ضرورت چوہدری نثار کی ” بے ادبی “ کرسکے اور ”چودھری نثارعلی خان“ کو بھی بروقت جواب دینے کے لئے ”ایزی لوڈ“ شاعری کی سہولت حاصل کرنا پڑے گی۔