چیئرمین نیب سےملاقات ”دوسرا حصہ”
جاوید چوہدری
میرے لیے چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کا یہ انکشاف حیران کن تھا‘ وہ فرما رہے تھے ’’مجھے میرے ایک عزیز کے ذریعے پیشکش کی گئی آپ نیب سے استعفیٰ دے دیں‘ آپ کوسینیٹر بنا دیا جائے گا اور آپ پھر کچھ عرصے بعد صدر پاکستان بن جائیں گے‘‘ وہ خاموش ہو گئے‘ میں نے پوچھا ’’آپ کو یہ آفر کس نے دی اور کب دی‘‘ وہ مسکرا کر بولے ’’یہ میں آپ کو چند دن بعد بتاؤں گا‘‘۔
میں نے اصرار کیا تو ان کا جواب تھا ’’یہ پچھلی حکومت کے آخری فیز میں ہوئی تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا یہ واحد پیشکش تھی‘‘ بولے ’’نہیں‘ مجھے اس سے پہلے بھی ایک پیشکش ہوئی تھی‘ مجھے کہا گیا تھا آپ مستعفی ہو جائیں‘ آپ دنیا میں جہاں کہیں گے آپ کو وہاں سیٹ کر دیا جائے گا‘‘ میں نے پوچھا ’’لیکن آپ کے استعفے سے کسی کو کیا فائدہ ہوتا؟‘‘ وہ بولے ’’میں اگر مستعفی ہو جاتا تو چیئرمین نیب کی کرسی خالی ہو جاتی‘الیکشن سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان شدید اختلافات تھے۔
دونوں میں نئے چیئرمین کے لیے اتفاق رائے نہ ہوپاتا اور یوں آج کے بے شمارمجرموں کے خلاف انکوائریاں رک جاتیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کا کیا جواب تھا‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’جواب واضح تھا‘ میاں نواز شریف اس وقت جیل میں ہیں اور میں آج بھی چیئرمین کی کرسی پر بیٹھا ہوں‘‘ میں نے عرض کیا ’’وفاقی وزراء بار بار این آر او کی بات کر رہے ہیں‘ کیا میاں برادران کی طرف سے این آر او یا رعایت کی درخواست کی گئی‘‘ وہ رکے‘ چند سیکنڈ سوچا اور پھر جواب دیا ’’میاں شہباز شریف کی طرف سے ایک پیشکش آئی تھی‘ یہ سیاست سے ریٹائر ہونے اور رقم واپس کرنے کے لیے تیار تھے لیکن ان کی تین شرطیں تھیں‘‘ یہ رکے اوربولے ’’یہ رقم خود واپس نہیں کرنا چاہتے تھے‘ ان کا کہنا تھا کوئی دوسرا ملک پاکستان کے خزانے میں رقم جمع کرا دے گا‘ دوسرا انھیں کلین چٹ دے دی جائے اور تیسرا حمزہ شہباز کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا جائے‘‘ وہ رکے اور بولے ’’میاں شہباز شریف نے اس سلسلے میں نیلسن منڈیلا اور ٹروتھ اینڈ ری کنسی لیشن کمیشن کی مثال دی تھی لیکن میرا جواب تھا جنوبی افریقہ کے ٹروتھ اینڈ ری کنسی لیشن کمیشن کی چار شرطیں تھیں‘ مجرم اپنا جرم مانیں‘ ریاست سے معافی مانگیں۔
پیسہ واپس کریں اور آئندہ غلطی نہ دہرانے کا وعدہ کریں لیکن میاں صاحب کہہ رہے ہیں یہ اپنا جرم نہیں مانیں گے اور معافی بھی نہیں مانگیں گے‘یہ صرف پیسہ واپس کریں گے اور وہ بھی خود نہیں دیں گے کوئی دوسراشخص یا کوئی دوسرا ملک جمع کرائے گا تو پھر پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا چنانچہ یہ پیشکش قابل قبول نہیں تھی‘‘ وہ رکے اور بولے ’’میاں نواز شریف اور ان کا خاندان بھی اس قسم کے ارینجمنٹ کے لیے تیار تھا‘‘ وہ خاموش ہو گئے‘ میں نے پوچھا ’’سر میاں برادران نے یہ پیشکش کس کے ذریعے کی‘ کس کو کی اور کب کی‘‘ وہ فوراً بولے ’’یہ میں آپ کو چند دن میں بتاؤں گا‘‘ میں نے ہنس کر عرض کیا ’’آپ ہر سوال کے جواب میں چند دن کہتے ہیں‘ آپ چند دن میں کہیں مستعفی تو نہیں ہو رہے؟‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’میں خود نہیں بھاگوں گا‘ میں اپنی مدت پوری کروں گا باقی جو اللہ کرے‘‘۔
میں نے سوال تبدیل کرتے ہوئے پوچھا ’’کیا آپ پر دباؤ ہے‘‘ وہ فوراً بولے ’’ہاں ہے‘ اپوزیشن اور حکومت دونوں ناراض ہیں‘ آپ کواگلے چند دنوں میں نیب کے خلاف ن لیگ‘ پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف تینوں ایک پیج پر دکھائی دیں گی‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ سب کا دباؤ برداشت کر لیں گے‘‘ وہ بولے ’’میرے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں‘ میں ملک کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہوں اور میں آخری سانس تک کرتا رہوں گا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ کو احساس ہے نیب کی وجہ سے بیورو کریسی اور بزنس کمیونٹی دونوں نے کام چھوڑ دیا ہے‘ ملک کی معیشت تباہ ہو گئی ہے‘‘ وہ فوراً بولے ’’یہ نیب کے خلاف پروپیگنڈا ہے‘ میں نے وفاقی بیورو کریسی اور پنجاب بیورو کریسی دونوں کو یقین دلایا تھا آپ کے خلاف کوئی نوٹس جاری نہیں ہو گا‘ آپ کام کریں‘ میں نے تاجر اور صنعت کار برادری کو بھی پیشکش کی آپ کو اگر نیب کے خلاف کوئی شکایت ہو تو آپ فوراً میرے ساتھ رابطہ کریں‘ جاوید صاحب یقین کریں میری پیشکش کو آج چار ماہ اور 17 دن ہو چکے ہیں لیکن مجھے بیورو کریسی اور تاجر برادری دونوں کی طرف سے ایک بھی شکایت موصول نہیں ہوئی‘ میں نے پورے نیب کو حکم جاری کر رکھا ہے یہ 17گریڈ سے اوپر کسی سرکاری افسر کو میری اجازت کے بغیر طلب نہیں کریں گے۔
بزنس مین کمیونٹی کو بھی میری اجازت کے بغیر طلب کرنے سے روک دیا گیا ہے چنانچہ یہ ہمارے خلاف سراسر پروپیگنڈا ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ پولیٹیکل انجینئرنگ کے لیے استعمال نہیں ہو رہے‘ آپ حکومت کے مخالفین کو پکڑ لیتے ہیں اور حکومت کا ساتھ دینے والوں کو چھوڑ دیتے ہیں‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’میں پورے ملک کو چیلنج کر رہا ہوں میں نے اگر کسی ایم پی اے یا ایم این اے سے کہا ہو آپ فلاں کو چھوڑ کر فلاں کو جوائن کر لیں یا میں نے کسی عوامی نمائندے سے چائے کا ایک کپ بھی پیا ہو تو میں خود استعفیٰ دے کر گھر چلا جاؤں گا‘ آپ وہ شخص لے آئیں‘ میں عہدہ چھوڑ دوں گا‘‘ وہ رکے اور ذرا سا سوچ کر بولے ’’تاہم یہ درست ہے ہم اگر آج حکومت کے اتحادیوں کو گرفتار کر لیں تو یہ حکومت دس منٹ میں گر جائے گی لیکن خدا گواہ ہے ہم یہ حکومت کے لیے نہیں کر رہے‘ہم یہ ملک کے لیے کر رہے ہیں‘ ہمارے ایک قدم سے ملک میں خوفناک بحران پیدا ہو جائے گا‘ ملک کو نقصان ہو گا اور ہم یہ نہیں چاہتے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا حکومت اپنے اتحادیوں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے‘‘ وہ ہاں میں سر ہلا کر بولے ’’یہ ان کی خواہش ہے لیکن میں حکومت کے دباؤ میں نہیں ہوں‘ میں صرف ملک کے مفاد میں خاموش ہوں لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں انکوائری یا ریفرنس تیار نہیں ہو رہے۔
نیب کی تیاری مکمل ہے‘جلد یا بدیر حکومت کے اتحادیوں کے خلاف بھی کارروائی ہو گی‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ ریفرنس بنا دیتے ہیں لیکن یہ ریفرنس منطقی نتیجے تک نہیں پہنچتے‘ کیا یہ آپ لوگوں کی نااہلی نہیں‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’مجھے آپ لوگوں کے ایسے تجزیوں پر اعتراض ہے‘ ہمارے پاس شکایت آتی ہے‘ ہم شکایت کی پڑتال کرتے ہیں‘ شکایت ٹھیک ہو تو انکوائری ہوتی ہے‘ ثبوت جمع کیے جاتے ہیں‘ تفتیش ہوتی ہے اور پھر ریفرنس بنا کر مقدمہ عدالت میں پیش کر دیا جاتا ہے‘ کیس وہاں جا کر رک جاتے ہیں‘ نیب نے اس وقت ساڑھے تین ہزار ریفرنس دائر کر رکھے ہیں‘ ہمارے پاس عدالتیں صرف 25 ہیں‘جج تیس دن میں فیصلے کا پابند ہے لیکن دس دس سال سے مقدمے لٹک رہے ہیں‘ ہمارے وکیل 75 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے تنخواہ لیتے ہیں‘ مخالفین دس دس کروڑ روپے کے وکیل کھڑے کر دیتے ہیں‘ ہمارے ایک کیس میں ملزم نے علی ظفر کو 25 کروڑ روپے فیس دی تھی جبکہ ہمارے وکیل عمران کی ماہانہ تنخواہ ڈیڑھ لاکھ روپے تھی‘ آپ فرق دیکھ لیجئے‘ دوسرا کرپٹ لوگ گینگ کی شکل میں کام کرتے ہیں‘ یہ بااثر اور رئیس لوگ ہوتے ہیں‘ یہ ایک دوسرے کو سپورٹ بھی کرتے ہیں‘ یہ عدالتوں سے بھی ریلیف لے لیتے ہیں۔
یہ حکومتوں میں بھی شامل ہو جاتے ہیں اور یہ پورے سسٹم کو بھی ہائی جیک کر لیتے ہیں اور یوںاحتساب بے بس ہو جاتا ہے لیکن ہم نے اس کے باوجودساڑھے تین ہزارریفرنس بھی دائر کیے اور303ارب روپے کی ریکوری بھی کی‘ یہ چھوٹا کارنامہ نہیں‘ یہ نیب ہے جس کے خوف سے ملک ریاض نے سپریم کورٹ میں 460 ارب روپے ادا کرنے کا اعلان کیا‘ ہم نہ ہوتے تو یہ کبھی اتنی بڑی رقم کا وعدہ نہ کرتے‘ یہ ہم ہیں جن کی وجہ سے لاکھوں غریب لوگوں کو ان کی ڈوبی ہوئی رقم واپس ملی‘ آپ ہاؤسنگ سکیموں کے سکینڈل اٹھا کر دیکھ لیں‘ ہزاروں غریب لوگوں کو ان کی پوری زندگی کی جمع پونجی واپس ملی لیکن میڈیا کو یہ نظر نہیں آتا‘ آپ لوگ ہمیں نواز شریف‘ شہباز شریف‘ آصف علی زرداری اور بابر اعوان کے ریفرنس سے دیکھتے ہیں‘ ملک میں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے‘ یہ ملک کرپشن کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے‘ یہ ہماری ماضی کی غلطیاں اور بدعنوانیاں ہیں جن کی وجہ سے ہم آج در در بھیک مانگ رہے ہیں‘ ہم اگر اس دلدل سے نکلنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ملک کو کرپشن سے پاک کرنا ہوگا ورنہ دوسری صورت میں ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گے‘‘۔
میں نے سوال کیا ’’ملک ریاض کا کیا قصور ہے‘‘ وہ بولے‘ میں اس شخص کا فین ہوں‘ میں خود بحریہ ٹاؤن میں رہتا ہوں‘ میرا بھانجا آسٹریلیا سے آیا‘ اس نے بحریہ ٹاؤن دیکھا اور بے اختیار کہا‘ یہ مجھے کینبرا جیسا لگتا ہے‘ میں بھیس بدل کر اس کے دستر خوان تک میں گیا‘ میں نے عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا‘ آپ یقین کریں وہ کھانا میری بیوی کے ہاتھوں سے پکے ہوئے کھانے سے بہتر تھا‘ میں سمجھتا ہوں ملک ریاض کو مزید کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے تھا لیکن میں اس کے باوجود یہ بھی کہتا ہوں ملک ریاض نے بھی اگر گڑ بڑ کی ہے تو یہ بھی سزا بھگتیں گے۔
سپریم کورٹ جس دن ان کا کیس ہمارے حوالے کرے گی ہم اس دن انھیں بھی کوئی رعایت نہیں دیں گے‘ میں نے پوچھا ’’اور احد چیمہ اور فواد حسن فواد کا کیا قصور تھا‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’ایک کو تکبر لے بیٹھا اور دوسرے نے سفارشیں شروع کرا دی تھیں‘‘ اورمیں نے آخری سوال کیا ’’آپ باہر سے رقم واپس کیوں نہیں لا رہے‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’باہر کی طاقتیں ہمارے کرپٹ لوگوں کی مدد کر رہی ہیں‘ یہ لوگ ان کو سپورٹ کر رہے ہیں‘‘۔ملاقات ختم ہوگئی‘ وہ مجھے دروازے تک چھوڑنے آئے‘ گرم جوشی کے ساتھ ہاتھ ملایا اور میں باہر آ گیا‘ مجھے محسوس ہوا یہ کرپشن کے خاتمے میں سنجیدہ ہیں‘ یہ دل سے غیرجانبدارانہ احتساب چاہتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں کرپشن اور ملک دونوں اکٹھے نہیں چل سکتے اور یہ کسی پارٹی‘ کسی شخص اور کسی محکمے کو سپورٹ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں لیکن سوال یہ تھا یہ غیرجانبدار رہ کر کتنا عرصہ سروائیو کر سکیں گے؟ مجھے محسوس ہوا یہ بھی بہت جلداسد عمر بنا دیئے جائیں گے‘ یہ بھی زیادہ دیر تک نہیں ٹک سکیں گے۔