ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی نوراکشتی 

50 / 100

محبوب الرحمان تنولی

یہ خود بے وقوف ہیں یا عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں! مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی انتخابات کے دوران نورا کشتی کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہےہیں کہ وہ پہلے کی طرح حریف ہیں جب جہازوں سے پیپلز پارٹی مخالف تصاویر گراتے تھے، لیکن عوام ان کی حالیہ پی ڈی ایم کے سائے تلے 16 ماہ کی تباہ کن حکومت کا عذاب ابھی جھیل رہےہیں۔

بلاول بھٹوزرداری اور شہبازشریف کی انتخابی جلسوں میں ایک دوسرے پر ہنس ہنس کر فرینڈلی فائرنگ مکاری کی بھانک قسم ہے۔۔ دونوں جماعتوں کے ملازمین رہنما بھی اس باہمی جملہ و نشتر بازی کا حصہ ہیں تاہم دونوں کے مالکان نوازشریف اور آصف زرداری غیر اعلانیہ طور پر ،،سیم پیج،، پہ ہیں دونوں بڑوں کی زباں بندی گواہی دے رہی ہےکہ انھیں پتہ ہے الیکشن کے بعد انھوں نے پھرایک ہو جاناہے۔

مبینہ طورپر ،، چنتخب ،،مسلم لیگ ن ، پاکستان پیپلزپارٹی، جے یو آئی ف، سرکاری  جماعتیں استکام پاکستان اور پی ٹی آئی پارلیمنٹیریز سب کا متفقہ ہدف تحریک انصاف ہے، نوازشریف، شہبازشریف،مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری، فضل الرحمان یہ وہ کردار ہیں جن کا خیال ہے پاکستان کے آج جتنے بھی مسائل ہے وہ عمران خان کے ساڑھے 3 سال کے اقتدار کی وجہ سے ہیں اس سے پہلے ملک  میں شہد اور دودھ کی نہریں بہتی تھیں۔

پاکستان کا سارا قرضہ عمران خان نے لیاہے 1985 سے اب 2024 تک نوازشریفف 3 بار وزیراعظم رہے، ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ شہید بے نظیر بھٹو، بھی مسند نشیں رہے، سندھ میں تو ہمیشہ سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ پنجاب میں شہبازشریف اور نوازشریف کلیم اللہ سے سمیع اللہ کا کھیل کھیلتے رہے۔ آئی ایم ایف کے قرضہ کی رسم بھی پرانی ہے۔۔ مگر حرام وہی قرضہ ہے جو عمران خان نے لیا تھا باقی سب حلال ہیں۔

ایسے ہی جیسے چیف الیکشن کمشنر سکندرسلطان راجہ کے مطابق عمران خان کے توشہ خانہ تحائف لینا جرم اور آصف زرداری، نوازشریف، شاہد خاقان عباسی، یوسف رضا گیلانی کے غیر قانونی تحائف اینٹھنا بھی جرم نہیں ہے۔۔ صرف راجہ صاحب ہی نہیں عدلیہ کے نزدیک بھی جرم صرف عمران خان کی گھڑی ہے باقیوں کی تعداد اگر ہزاروں میں بھی ہے تو کوئی بات ہے، ان کی فائلیں الماریوں میں بند ہیں۔

نوازشریف کا وژن ان کی تقاریر میں بولتاہے۔۔۔ فرماتے ہیں۔۔۔۔ یاد ہے ناں میرے دور میں روٹی 5 روپے کی تھی ۔۔ یہ نہیں بتاتے کہ جب روٹی 20 روپے کی ہوئی ہے تب بھی ان ہی کی حکومت تھی۔۔۔۔ چھوٹے بھائی شہبازشریف وزیراعظم تھے اور انہی کی کابینہ کے اجلاس وہ لندن میں بلایا کرتے تھے۔۔ شہبازشریف وزیراعظم تھے انھیں لندن بلا کر ہدایات جاری کرتے تھے ۔۔۔۔ اب شہازشریف کی 16 ماہ کی تباہ کن حکومت کانام لیتے ہوئےبھی شرماتے ہیں۔

میاں صاحب جب بھی گویا ہوتے ہیں ان کی تان عمران خان پہ ٹوٹتی ہے مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی اور جے یوآئی کا وہ 16 ماہ کا سیاہ دور چبا جاتے ہیں۔۔۔ عوام کا حافظہ اتنا کمزور نہیں ہے۔۔ اگر ریاست نے عوام کے خلاف لڑائی جاری نہ رکھی اور نتائج تبدیل نہ کئے تو 8 فروری کا دن خود فیصلہ کرلے گا۔۔ مگر بعید ازقیاس نہیں ہے کہ جنھوں نے نوازشریف کو واپس لانے، کیسز ختم کرنے،عمران خان کو مقابلے سے آوٹ کرنے کے اتنے جتن کئے اور عوام کی نفرت سمیٹی وہ شفاف الیکشن کیوں کرائیں گے؟

جب پی ڈی ایم اور اس کے بعد جنم لینے والی سیاسی جماعتوں کے رہنما ہر جلسہ میں صرف عمران خان کو ہدف بناتے ہیں تو وہ دراصل عوام کے سامنے یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم سب مل کر بھی اسے سیاسی شکست نہیں دے سکتے اسی لئے اپنے منشور اور آئندہ کے لائحہ عمل پہ بات کرنے کی بجائے عمران خان عمران خان کی گردان کرتے نہیں تھکتے ۔۔ باشعور طبقہ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ وہ شخص جیل میں ہے۔۔ پارٹی کمپنی نے کچل دی پھر بھی یہ خوفزدہ کیوں ہیں؟

آصف زرداری کو عمران خان نے قید میں نہیں ڈالا تھا مگر اس کے باوجود وہ اپنی 11 سالہ قید کے دوران کبھی پمز اسپتال کے پرائیویٹ وارڈ میں سب جیل قرار دلوا کررہتے رہے کیھی کہیں اور۔۔ میاں نوازشریف قید سے  جس جھوٹ اور دھوکہ دیہی کے ساتھ نکلے پاکستان کے عوام کو ایک ایک لمحہ یاد ہے تمام لیگی رہنما کہتے تھے کہ میاں صاحب کی موت واقعہ ہوگئی تو ذمہ دار عمران خان ہوں گے اس شخص نے پھر بھی دل بڑا کیا اور پلیٹلیس مریض کو بھجوادیا باہر ۔۔ آگے علاج جو ہوا ساری قوم نے دیکھا ہے۔

دوسری طرف عمران خان ہے جو150 پلس مقدمات کاسامنا کررہا ہے۔۔ 5 ماہ سے جیلوں میں قید ہے لیکن وہ ایک دن بھی بیماری کا بہانہ کرکے اسپتال شفٹ نہیں ہوا۔۔۔ بقول عمران خان کے انھیں ڈیل کی آفرز بھی ہوئیں۔۔ملک سے باہر جانے کی پیشکش ہوئی لیکن وہ ڈٹا ہوا ہے کہ غلامی قبول نہیں کرنی ۔۔ جیل سے کارکنوں کو پیغام دیتا ہے کہ اگرمیں ہمت نہیں ہارا تو آپ بھی مت ہاریئے ۔۔حالیہ ایک ہفتہ میں 3 مقدمات کی سزائیں ہو چکیں۔۔ سزا سنتا ہے تو مسکرا کر اپنی بیرک میں چلا جاتاہے۔

یہ پوری قوم کی بد قسمتی ہے کہ ملک میں آئین توڑنا جرم نہیں ہے۔۔ لیکن غیر قانونی عمل پر احتجاج کرنا جرم ہے۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے لندن میں ایک تقریب میں اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں کئی بار آئین کو پامال کیا گیا لیکن آئین شکنوں کا احتساب نہیں ہو سکا۔۔ ان الفاظ کے ساتھ ہی انھوں نے یہ وضاحت بھی دینا ضروری سمجھی کہ میں عدلیہ کے اس کردار کا دفاع نہیں کروں گا۔

ملک بھر میں انتخابات 2024 کی انتخابی مہم تیزی سے جاری ہے لیکن تحریک انصاف کے کاغذات نامزدگی چھیننے، بلے کا نشان واپس لینے کے بعد بھی جان خلاصی نہیں ہوئی اور پی ٹی آئی کو کارنر میٹنگ کےلئے مشکلات درپیش ہیں، شاید وطن عزیز میں پہلی بار انوکھا انتقام ہے کہ ریاست ایک سیاسی جماعت کو پوری سرکاری مشینری کے ساتھ کچلنے میں لگی ہے،میڈیا مینیج ہے۔۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے 25 کروڑ عوام کے ذہنوں کو مینیج نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اللہ کریم نے سب کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دے رکھی ہے۔   

ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی نوراکشتی 

Comments are closed.