تاریخ کا سیاہ باب

51 / 100

حافظ محمد زبیر

سانحہ ماڈل ٹاؤن کو گزرے آج 9 برس بیت گئے ۔ ہر گزرتا سال انصاف کی ایک سیاہ تاریخ رقم کرتے ہوئے بڑھتا چلا جا رہا ہے ۔ مگر لواحقین میں امید کی کرن آج بھی باقی ہے کہ شاید عدالتوں کے ترازو حرکت میں آئیں۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کا کیس گزشتہ 9 سالوں سے ملک کی تمام چھوٹی بڑی عدالتوں میں زیر بحث رہا لیکن کسی عدالت اور کسی جج کی ہمت نہ ہوئی کہ اس کیس کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔

ہمیں ان 9 سالوں میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی کہانی تو رٹ ہی گئی ہے، تمام Facts & Figure ہمارے سامنے ہیں ، کتنے شہید ہوئے کتنے زخمی ، اور سانحے کی بے بنیاد حکومتی وجوہات بھی ہمارے سامنے ہیں ۔ لیکن آج اس سانحے کو عدالتی ترازو میں تولنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سنہ 2014 سے 2023 تک سپریم کورٹ کے کئی چیف جسٹس آئے ، بڑے بڑے فیصلے اِنہیں عدالتوں نے کیے، جس میں سرفہرست نواز شریف ، جہانگیر ترین کی تاحیات نا اہلی، پانامہ کیس، عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد، ملک میں الیکشن کے لیے تاریخ کا تعین کرنے سمیت دیگر اہم فیصلے بھی شامل ہیں۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں انصاف کی امید اس وقت جاگی جب عوامی دباؤ کی وجہ سے اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے حکم پر ماڈل ٹاؤن واقعہ کی تحقیقات کے لیے جسٹس باقر علی نجفی پر مشتمل یک رکنی عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا۔

پاکستان عوامی تحریک نے حکومت کی طرف سے تشکیل دیے گئے جوڈیشنل کمیشن کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اس کو مکمل طور پر مسترد کر دیا اور مطالبہ کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب اس قتل و دہشت گردی کے اصل ذمہ دار ہیں.

چنانچہ ان کے مسندِ اقتدار پر رہتے ہوئے کسی قسم کی غیر جانبدارانہ تفتیش وشہادتوں کا کوئی امکان ہے نہ ہی عدل و انصاف کے تقاضوں کی بجا آوری ممکن ہے۔ لہٰذا وزیراعلیٰ پنجاب اور اس جرم میں شریک وزراء فی الفور مستعفی ہو کر خود کو قانون کے حوالے کریں۔

بعد ازاں جسٹس باقر نجفی کمیشن نے اپنی تحقیقات مکمل کیں ، دسمبر 2017 میں جب باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آئی تو سانحہ ماڈل ٹاؤن بپا کرنے والوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ نے شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کو قاتل ڈیکلیئر کر دیا۔ اور اس سارے سانحے کا ذمہ دار قرار دیا۔

لیکن اس ساری تفتیش کے باوجود بھی آج کے دن تک مجرموں کو سزا تو ملنا دور کی بات ، بڑے بڑے عہدوں پر تعینات کیا جاتا رہا ۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارا انصاف کا نظام دنیا بھر میں بد ترین رینکنگ پر ہے۔

پاکستان کو 139 میں سے 130 ویں نمبر پر رکھا گیا۔ جب کہ سول جسٹس میں پاکستان کی دنیا میں 139 میں سے 124 ویں پوزیشن ہے جبکہ کریمینل جسٹس میں 108 ویں پوزیشن ہے۔

اگر ہم انصاف فراہم کرنے والے اعلیٰ ججز صاحبان پر نظر ڈالیں (جن کے سامنے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس رہا) تو ہمیں کچھ حیرت انگیز حقائق دیکھنے کو ملیں گے۔

سنہ 2014 سے 2023 تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے اہم ترین عہدے (چیف جسٹس) پر تعینات رہنے والے سات چیف صاحبان کے نام مندرجہ ذیل ہیں
چیف جسٹس ناصر الملک ،
چیف جسٹس جواد ایس خواجہ ،
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی،
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار،
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ،
چیف جسٹس گلزار احمد،
موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال

مندرجہ بالا سات چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نے ان 9 سالوں میں 99 سوموٹو نوٹسز لیے۔ 2018 کے دوران سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں انصاف میں تاخیر پر لیا گیا سوموٹو نوٹس بھی ان 99 سوموٹو نوٹسز میں شامل ہے۔

لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن جو کہ ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں دن دیہاڑے سینکڑوں کیمروں کے سامنے پیش آیا ، دنیا بھر نے ظلم ہوتا دیکھا لیکن ہمارے معزز چیف جسٹس صاحبان کے لیے شاید یہ شواہد ناکافی تھے۔
آخر ہم کب تک یونہی مجرموں کے سائے تلے برسیاں مناتے رہیں گے ؟ آخر کب ہم جھنڈ نہیں قوم بنیں گے؟

جب جسٹس باقر نجفی کمیشن نے تفتیش اور تحقیق کی بنیاد پر مجرموں کی واضح نشاندہی کی تو ان سات چیف جسٹس صاحبان نے اس رپورٹ کو کیوں ایک بار بھی مدنظر رکھتے ہوئے تفتیش آگے بڑھائی؟

یقیناً یہ نظام جو ازل سے ظالموں ، دہشتگردوں ، مافیا کا رکھوالا ہے اس میں مظلوموں کو انصاف ملنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ نہ ممکن ہے۔

ہزاروں ظلم ہوں مظلوم پر تو چپ رہے دنیا
اگر مظلوم کچھ بولے تو دہشت گرد کہتی ہے

تاریخ کا سیاہ باب 

Comments are closed.