عدالتی اصلاحات بل آگیا عدالتی کٹہرے میں، سپریم کورٹ آج سماعت کرے گی

نوازشریف کیلئے بل میں سیاسی لائف لائن موجود

50 / 100

فوٹو : فائل

اسلام آباد: عدالتی اصلاحات بل آگیا عدالتی کٹہرے میں، سپریم کورٹ آج سماعت کرے گی، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیخلاف درخواستوں کی 8 رکنی لارجر بینچ ساڑھے 11 بجے سماعت کرے گا۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ کے دیگر ممبران میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔

اس سے قبل 10 اپریل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق بل کثرت رائے سے ترامیم کے ساتھ منظور کیا گیا تھا تاہم ابھی تک اس پر صدرِ مملکت نے دستخط نہیں کئے ہیں.

بل پرصدر کے دستخط کے بعد چیف جسٹس کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم ہو جانا ہے اور 3 سینئر ترین ججز ازخود نوٹس سے متعلق فیصلہ کر سکیں گے۔

عدالتی اصلاحات سے متعلق پریکٹس اینڈ پروسیجر بل آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت نظرثانی کیلئے گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ کو واپس بھجواتے ہوئے صدر مملکت کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ اس بل پر از سر نو غور کرے.

صدر عارف علوی نے کہا تھا کہ مسودہ بل بادی النظر میں پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا سپریم کورٹ کے جانچ شدہ قواعد میں چھیڑ چھاڑ عدالت کی اندرونی کارروائی، خود مختاری اور آزادی میں مداخلت کے مترادف ہو سکتی ہے، آرٹیکل 67 پارلیمان اور آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو تحفظ فراہم کرتا ہے، یہ آرٹیکل دونوں اداروں کے اختیار میں مداخلت سے منع کرتے ہیں۔

نوازشریف کو بھی سیاسی لائف لائن مل جائے گی

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تحت ازخود نوٹس لینے کا اختیار صرف چیف جسٹس کی بجائے اب اعلیٰ عدلیہ کے 3 سینئر ترین ججز کے پاس ہوگا۔

ایکٹ کے تحت چیف جسٹس کا ازخود نوٹس کا اختیار محدود ہوگا، بینچوں کی تشکیل اور ازخود نوٹس کا فیصلہ ایک کمیٹی کرے گی جس میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز ہوں گے۔

متذکرہ قانون سازی کے تحت نواز شریف کو از خود نوٹس پر ملی سزا پر اپیل کا حق ملے گا جبکہ نااہل قرار پانے والے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، جہانگیر ترین اور دیگر فریق بھی اپنے خلاف فیصلوں کو چیلنج کرسکیں گے۔

Comments are closed.