لوگوں کو بتانا ہوگا کہ اسلام میں پردے کا حکم کیوں دیا گیا ؟وزیراعظم

52 / 100

فوٹو:ریڈیو پاکستان

اسلام آباد( زمینی حقائق ڈاٹ کام)وزیراعظم عمران خان نے واضح کیاہے کہ میں اسلامی ا سکالر نہیں، اپنی زندگی کے تجربہ سے دین کی طرف آیا ہوں، وزیراعظم نے کہامیں نے دونوں طرح کے کلچر دیکھے، میں نے مغربی معاشرے کو قریب سے دیکھ کر تجزیہ کیا، مجھ میں اصل تبدیلی نبیﷺکی سیرت پڑھنے کے بعد آئی۔

رحمت اللعالمینﷺ اتھارٹی کی فعالیت کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا سیاست میں آنے سے بھی پہلے مجھے اس بات کا احساس تھا کہ ہمیں اسکول میں یہ چیزیں نہیں پڑھائی جاتیں۔

انھوں نے کہا مجھے کبھی بھی اسکول میں دینیات اور اسلامیات کی کلاس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ میں کیوں رسول ﷺ کے راستے پر چلوں؟ ہمیں رسولﷺسے محبت اور ریاست مدینہ کا تصور نہیں سمجھایا گیا، بلکہ بتایا گیا کہ برطانوی و مغربی جمہوریت میں کامیابی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب میں اسکول میں تھا تو ہمیں نئی نئی آزادی ملی تھی، تب ہمیں اسکول میں پڑھایا جاتا تھا کہ برطانیہ اور مغربی جمہوریت کے راستے پر چلو تو کامیابی ملے گی، میں دو ثقافتوں کو دیکھا ان میں رہ کر اپنی زندگی کے تجربہ سے اسلام کی طرف راغب ہوا۔

عمران خان نے کہا ہے کہ اگر ہم نے بچوں کو سمجھا دیا کہ نبی ﷺ کا راستہ کیا تھا تو یہ قوم اوپر چلی جائے گی، کیونکہ جس قوم کا کردارا بڑا نہیں ہوتا وہ بڑی قوم نہیں بن سکتی۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اقتدار میں آکر اندازہ ہوا کہ حکومت کئی چیزیں ٹھیک نہیں کرسکتی،اخلاقی تربیت کا آغاز بنیادی سطح سے کرنا ہوگا،انہوں نے کہا کہ برطانیہ کا معاشرہ اسی لیے ہم سے آگے ہے کہ وہاں برائی کو دبایا جاتا ہے اور اچھائی کو فروغ دیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان کی اخلاقیات ہم سے بہت آگے ہیں، وہاں عوام کا پیسہ چوری کرنے کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا، وہاں کوئی مقصود چپڑاسی نہیں ہوتا،ہمارے ہاں لوگ ملکی دولت لوٹنے والوں پر پھول پھینکتے ہیں ، صحافی و وکلاء ان کیلئے آواز بن جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسی لیے ہمیں اپنے بچوں کو سیرت النبیﷺپڑھانی چاہیے تاکہ برائی کرنے والوں کو قوم خود تنہا کردے،وزیراعظم نے کہا کہ ملک صرف کرپشن کی وجہ سے غریب ہوتے ہیں بے شک ساری دنیا کے غریب ممالک کا جائزہ لے لیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس اتھارٹی کے قیام کی ضرورت اس لیے پڑی کیونکہ ہماری نوجوان نسل اور بچوں کو سمجھ ہی نہیں ہے کہ یہ ملک کیوں بنا تھا، ہمارے نبی ﷺکا پیغام کیا تھا، اور ان کی پیروی کا حکم قرآن میں کیوں دیا گیا؟

عمران خان نے کہا سوئزرلینڈ جیسا ملک بغیر وسائل کے امیر ترین ملک اسی لیے ہے کیونکہ وہاں کرپشن نہیں ہے،نیوزی لینڈ میں کسی پر کرپشن کا ذرا سا دھبہ لگ جائے تو وہ عوام کا سامنا نہیں کرپاتا، جب کہ ہمارے ملک میں برائی اور کرپشن کو عام بنادیا گیا ہے، اچھے برے کی تمیز ختم کردی گئی ہے۔

عمران خان نے کہا 3 سال پہلے جب میں نے حکومت سنبھالی تو آئی جیز کو بلا کر کرائم چارٹ دیکھا، مجھے اسلام آباد اور پنجاب کے آئی جیز نے بتایا کہ جنسی جرائم کی شرح سب سے اوپر جارہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ قصور واقعہ ہوا تو میں نے باقاعدہ ایک آئی جی کو چُن کر وہاں بھیجا، انہوں نے واپس آکر مجھے رپورٹ دی کہ جب تک اساتذہ اور علما کو ساتھ ملا کر اس کے خلاف آگہی مہم نہ چلائی جائے تب تک جنسی جرائم کا خاتمہ نہیں ہوسکتا کیونکہ کئی لوگ جنسی جرائم رپورٹ ہی نہیں کرتے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ریپ اور چائلڈ پورنوگرافی کے کیسز سب سے زیادہ ہیں، لوگ شرم کے مارے ایف آئی آر درج نہیں کرواتے اس لیے 1 فیصد جنسی جرائم بھی رپورٹ نہیں ہوتے،انہوں نے کہا کہ اسی لیے میں نے سوچا کہ معاشرے کو خود اس برائی کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ یاد رکھیں کہ معاشرہ تب مقابلہ کرے گا جب لوگوں میں بنیادی اخلاقیات سے آگہی ہوگی، لوگوں کو بتانا ہوگا کہ اسلام میں پردے کا حکم کیوں دیا گیا ؟وزیراعظم نے کہا اس سے مراد صرف لباس نہیں ہے۔

انھوں نے واضح کیا کہ پردے سے مراد صرف لباس نہیں بلکہ آنکھوں کا بھی پردہ ہے، برطانیہ میں طلاق کی شرح اسی لیے بڑھ گئی کیونکہ وہاں اخلاقی قدریں تبدیل ہونا شروع ہوگئیں اور فحاشی بڑھتی گئی۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پردے کا تصور خاندانی نظام کو تحفظ دینا ہے، ہم صرف پردے کرنے کا حکم بتاتے ہیں لیکن اس کے پیچھے چھپی حکمت نہیں بتاتے، اس کے پیچھے ایک بڑا فلسفہ ہے، جیسے جیسے فحاشی بڑھے گی سب سے پہلے خاندانی نطام متاثر ہوگا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ آج کل بچے جو کارٹونز اور پروگرام دیکھ رہے ہیں اس میں ماں باپ اور استاد کی عزت نہیں دکھائی جاتی، ہمارے دین میں ماں باپ کی عزت کے پیچھے بھی بڑا فلسفہ ہے، سب سے بے لوث محبت ماں باپ کی اپنی اولاد سے ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ والدین نہیں چاہتے کہ ان کی اولاد ان کی غلطیاں دہرائے، الحمداللہ ہمارا خاندانی نظام اب بھی مغرب سے بہتر ہے، اسی لیے ہم نے یہ اتھارٹی بنائی ہے کہ لوگوں کو اور نوجوان نسل کو بتائیں کہ ان احکامات کے پیچھے فلسفہ کیا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس اتھارٹی کے قیام کا مقصد علمااور اسکالرز کو ایک جگہ اکٹھا کرنا ہے، یہاں سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ سب کی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد ہے، لیڈر شپ شخصی تربیت کا اہم جُز ہے، برے لیڈر کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہ انسانوں کے درمیان تفریق کرتا ہے۔

Comments are closed.