بھارت کو کلبھوشن کیلئے وکیل مقرر کرنے کا پاکستانی عدالت نے موقع دیدیا

53 / 100

فوٹو: فائل

اسلام آباد( ویب ڈیسک )بھارت کو کلبھوشن کیلئے وکیل مقرر کرنے کا پاکستانی عدالت نے موقع دیدیا،اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے ریمارکس میں کہا گیا کہ کلبھوشن یادیو کو بطور انسان شفاف ٹرائل کا حق حاصل ہے۔

بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیلئے سرکاری وکیل مقرر کرنے سے متعلق درخواست کی اسلام آبا د ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی ،درخواست کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں لارجر بینچ کررہاہے۔

عدالت کو وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان نے بتایا کہ بھارتی سفارت خانے نے ابھی تک کوئی وکالت نامہ جمع نہیں کرایا۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اس کا کوئی ایکٹ پاس ہوگیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیاکہ آرڈیننس میں کچھ چیزیں نہیں تھیں جو ایکٹ میں ترامیم کی گئی۔ ایکٹ کے سیکشن 2 میں ہائیکورٹ میں نظر ثانی اپیل دائر کرنے کی اجازت دی گئی۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ بین الاقوامی عدالت انصاف نے ہماری عدالتی نظام کو تسلیم کیا، بین الاقوامی عدالت انصاف کی طرف سے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیا گیاتھا۔

اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ بھارت اس کیس میں خود کو انگیج نہیں کرنا چاہتا۔ بھارت صرف یہی چاہتا ہے کہ پاکستان کو کسی طرح سے بین الاقوامی عدالت انصاف پہنچایا جائے جبکہ پارلیمنٹ نے کوشش کی کہ ملزم کو وکیل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔

عدالت کو اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے میں پاکستانی عدالتوں میں اپیل دائر کرنے کا کہا گیااور کلبھوشن یادیو کو پاکستان نے کونسلر رسائی بھی دی ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس میں کہا بین الاقوامی عدالت انصاف کا فیصلہ شاید بھارت نے پڑھا نہیں یا غلط تشریح کی جارہی ہے، اگر بھارت اس کیس میں نہیں آنا چاہتا تو کیس کو کیسے آگے لیکر چلیں؟

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بھارت نے آئی سی جے کا فیصلہ پڑھا ہے مگر غلط تشریح کررہے ہیں، اگر بھارت نہیں چاہتا تو عدالت کلبھوشن یادیو کے لیے خود نمائندہ مقرر کرے۔

اس موقع پرجسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ وزارت قانون ہی اس کے لیے نمائندہ مقرر کرے گی، مگر کیس آگے کیسے لیکر جانا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ بھارت کو نہ کلبھوشن یادیو کیس میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی ایکٹ آف پارلیمنٹ میں ہیں۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ کے ریمارکس میں واضح کیا گیا کہ کلبھوشن یادیو کیس کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں اور ہونا چاہیے، کمانڈر کلبھوشن یادیو کو فیئر ٹرائل کا حق حاصل ہے، بھارتی حکومت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہم کلبھوشن یادیو کو بھارتی شہری کی طرح ٹریٹ نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ کیس بطور انسان دیکھ رہے ہیں ، اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ عدالت پہلے بھی غیر جانبدارکو عدالتی معاون بنائے ہیں تاہم بھارت کو موقع دیتے ہیں تو دے دیں۔

بعد میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھارت کو کلبھوشن کیلئے وکیل مقرر کرنے کا آخری موقع دیتے ہوئے سماعت 13 اپریل تک ملتوی کر دی،
واضح ہے کہ بھارت اس کیس میں جان بوجھ کر دلچسپی نہیں لے رہا مگر پاکستان عالمی عدالت انصاف کے احکامات کو فالو کررہاہے۔

Comments are closed.