آئی ایم ایف کو بتا دیا،ٹارگٹ نہ دیں، ٹیرف نہیں بڑھا سکتے، وزیر خزانہ


اسلام آباد( زمینی حقائق ڈاٹ کام)وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے حکومت نے آئی ایم ایف کو بتا دیاہے ٹیرف نہیں بڑھا سکتے ، یہ بھی کہا ہے ہمیں ٹارگٹ نہ دیں ہم اپنے طریقہ سے ریونیو بڑھائیں گے، معیشت سنبھل چکی تھی کورونا کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں شوکت ترین کا کہنا تھاٹیرف میں اضافے کی ہمارے پاس گنجائش ہی نہیں ہے، ہم آئی ایم ایف پروگرام سے نکلیں گے نہیں تاہم اس کے طریقہ کار کو تبدیل کریں گے، ہمیں انہیں ثابت کرنا ہے کہ ہم اپنے اقدامات سے بھی ریونیو بڑھا سکتے ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ ‘2008 میں جب آئی ایم ایف کے پاس گیا تھا اس وقت ماحول مناسب تھا تاہم اب ماحول کچھ اور ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف نے ہم پر سخت شرائط لگائیں جس کی سیاست قیمت بھی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ حکومت نے سخت شرائط پر عمل کیا اور ملک کو استحکام کی جانب لے کر گئے اور جب نمو کی جانب جانا تھا تو ملک میں کورونا آگیا، ان کا اور وزیر اعظم کا فلسفہ ہے کہ ملک کو اب استحکام سے نمو کی طرف لے کر جانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مارچ میں ریونیو گزشتہ سال سے 46 فیصد بڑھا اور 20 اپریل تک 92 فیصد نمو تھی تاہم اپریل کے آخر میں کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ کم ہوکر 57 فیصد پر آگیا تھا، کوروناکے دوران حکومت نے 1200 کھرب روپے کا پیکج دیا جس سے معیشت میں کچھ بہتری دیکھی گئی۔
جاری ہے

شوکت ترین نے کہا اس معیشت کو نمو کی جانب لے کر جانا ہے، اس کے لیے ہمیں صنعتوں کو مراعات دینی ہوں گی تاکہ صنعتیں ترقی کریں اور عوام کے لیے روزگار پیدا ہوں،ہمیں کورونا سے خطرہ ہے ورنہ ہماری معاشی بحالی کا عمل شروع ہوچکا ہے۔

انھوں نے اپنے لائحہ عمل کے حوالے سے بتا کہ ہم قیمتوں میں استحکام، سماجی تحفظ، معاشی استحکام، اخراجات کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی کر رہے ہیں،بجٹ میں ایسے پروگرام لائیں گے کہ عام آدمی کو ٹیکس نیٹ میں آنے میں کوئی پریشانی نہیں اٹھانی پڑے گی۔

ایسی پالیسی بھی زیر غور ہے تاکہ ایف بی آر کی طرف سے عوام کو ہراساں کرنے کے عمل کا خاتمہ ہو، ‘میں کسی پر تنقید نہیں کرتا مگر صلاحیت کی ادائیگی ساڑھے 5 فیصد سے بڑھتی رہتی تو ہمیں اسے ادا کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 62 فیصد آبادی ہماری دیہاتوں میں رہتی ہے اور ان کا پیشہ زراعت ہے تاہم اس شعبے میں گزشتہ 10 سالوں میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے اور ہمیں اس پر پیسے خرچ کرنے پڑیں گے اور یہ ہماری ترجیح میں شامل ہے۔

انھوں نے کہاہماری صنعتیں معیار کے مطابق نہیں، برآمدات کی زیادہ تر صنعتیں خاندانی کاروبار ہیں جس کا دو نسلوں بعد بٹوارا ہوجاتا ہے،
ایکسپورٹ کی صنعت میں غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کا نام و نشان نہیں، ہم اس حوالے سے چین سے بات کر رہے ہیں۔

تا کہ ٹیکسٹائل اور چمڑے کی صنعت یہاں لگائے اور یہاں سے بر آمد کرے،آئی ٹی سالانہ بنیاد پر 65 فیصد کے حساب سے نمو کی جانب جارہی ہے اور یہ 100 فیصد تک جاسکتی ہے اور یہ شعبہ ہمارے لیے گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا ہاؤسنگ کے شعبے میں بھی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں اور جب اس نے اپنی رفتار پکڑی تو یہ بہت آگے تک جائے گی اور یہ بینکس کے لیے بہت اچھا ہے، بینکنگ سیکٹر میں 100 روپے ڈپازٹ ملتا ہے تو 48 روپے قرض لیے جاتے ہیں، یہ بہت بڑا فرق ہے۔

انہوں نے کہا کہ بینکنگ سیکٹر کا فوٹ پرنٹ جی ڈی پی کا 33 فیصد ہے جو دنیا میں سب سے کم ترین میں سے ہے اور اسی وجہ سے ہماری سیونگ کی شرح میں اضافہ نہیں ہورہا، گورنر اسٹیٹ بینک کے ساتھ ایس ایم ای قرضے کی اسکیم کا آغاز کیا ہے۔

مجھے تعجب ہے کہ اب تک پورے سسٹم میں صرف ایک لاکھ ایس ایم ای قرضے ہیں، ہمارا مقصد ہے کہ آئندہ سالوں میں یہ ایک لاکھ 20 سے 30 لاکھ تک پہنچے، اس میں مراعات دے رہے ہیں، اس کے 50 فیصد نقصانات کو انشورنس کمپنی کے ذریعے حکومت برداشت کرے گی۔

کامیاب نوجوان پرواگرام کاذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس میں صرف ساڑھے 8 ہزار قرضے ہیں جو بہت کم ہیں، اسے ہم تبدیل کریں گے اور اس کے ساتھ کامیاب کسان پروگرام کا بھی آغاز کریں گے اور اس طریقے سے ہم ملک میں نچلی سطح پر استحکام لاسکتے ہیں۔

Comments are closed.