بلیاں ۔ تھیلے سے باہر آگئیں

محبوب الرحمان تنولی

ایک ہوتی تھی ۔ پی ڈی ایم۔۔ ہمیں تو روز اول سے اس نتیجہ کا یقین تھا۔۔ جب جلسوں میں گلے پھاڑ پھاڑ کر ۔۔ آر یا پار۔۔ دسمبر۔ جنوری ۔ مارچ میں مارچ ۔ کے خیالی دعوے کرتے تھے ہم تب بھی کہتے تھے۔۔ یہ منہ اور مسور کی دال۔۔ہمیں آصف زرداری کی سیاسی صلاحیت ۔ مریم نواز کی ابھرتی ہوئی آواز اور مولانا کے دور اندیشی پر شک نہیں تھا۔۔

بس ان کی ، ٹارگٹڈ ، تحریک واضح تھی۔۔۔ ہر ایک جماعت کا اپنا ہدف تھا۔۔بظاہر،،خان،، مشترکہ دشمن تھا ۔۔ جسے مفادات کیلئے جھوٹ بول کر مشترکہ ہدف قرار دیا جاتا تھا۔۔۔ حیرت پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی اتحاد کے ساتھ چمٹے رہنے پر تھی۔۔ مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاتا ۔۔ لیکن مولانا تو کئی بار،، ڈسے ،،گئے ہیں۔

پہلے یہ انتخابات کے فوری بعد حلف اٹھانے کے حق میں نہیں تھے۔۔۔ کسی نے ایک نہیں سنی ۔۔ اپنا سا منہ لے کر گھر چلے گئے۔۔ پھر جنات کے اشارے اور اتحادیوں کے سہارے اسلام آباد مارچ شروع کردیا۔۔کئی راتیں ہزاروں کارکنوں نے اسلام آباد کی ایک ویران سڑک پر ٹھٹھر کر گزاریں۔۔ ۔ کوئی اتحادی ساتھ دینے نہ آیا۔۔ جو آئے تقاریر کرکے چلتے بنے۔۔۔مرے تھے جن کیلئے وہ رہے وضو کرتے۔

لیکن اتحادیوں کے دما غ بھی تو کام کرتے ہیں ناں۔۔۔ انھیں بھی پتہ تھا مولانا پارلیمنٹ سے بھی باہر ہیں ۔۔۔ اور اس بار حکومت سے بھی باہر ہیں۔۔ان کے حلف نہ اٹھانے اور لشکر لے کر اسلام آباد آنے کے پیچھے اس سسٹم کو ناکام بنا نا ہے جس میں باقی سب تو پارلیمنٹ میں موجود ہیں ۔۔ مولانا کی حاضری برائے نام۔۔لیکن مولانا پر پھر بھی سابق وزیراعظم اور سابق صدر کاسحر طاری تھا۔

ان اتحادیوں نے پی ڈی ایم کے سربراہ کو آخری ،،دھوبی پٹکا،، سینیٹ انتخاب میں مارا ۔۔۔ جب یوسف رضا گیلانی کو جتوا لیا ۔۔ باری آئی عبدالغفور حیدری کی تو اتحادیوں کے 10بندوں نے مولانا کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیا۔۔۔ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی بجائے الٹا الزام حکومت پر د ے مارا۔۔ ان کا خیال تھا مولانا فول بن گئے ہیں۔۔ لیکن پی ڈی ایم کے اجلاس میں مولانا بھی پھٹ پڑے۔

پیپلز پارٹی کے بظاہر چیئرمین بلاول بھٹوزرداری ہیں لیکن ایک بار پھر سب نے دیکھ لیا۔۔۔ وہ صرف دکھانے کیلئے رکھے ہوئے ہیں۔۔ فیصلوں کاحق ۔۔ ان کے ابا جی کے پاس ہے۔۔ بلاول گلہ پھاڑ پھاڑ کر دسمبر۔ جنوری اور مارچ کی تاریخیں دیتے اور مریم نواز کی داد وصول کرتے رہے۔۔آصف زرداری کے دماغ میں یوسف رضا گیلانی کو منتخب کرنا تھا ۔۔پہلی کوشش میں تو وہ کامیاب ہوگئے۔

یوسف رضا گیلانی کو جب اپوزیشن کا چیئرمین سینیٹ کیلئے مشترکہ امیدوار بنایا گیا ۔۔ ۔ ن لیگ کے پرانے لوگوں کوسمجھ آگئی کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھنے لگا ہے ۔۔۔ غصہ سے آگے خانے میں مہریں مارنے کی بجائے ۔۔ گیلانی صاحب کے نام پر ٹھپے مار دئیے۔۔ کل تک وہ سب اندر اندر سے شرمندہ تھے لیکن آصف زرداری صاحب نے تقریر کرکے بازی پلٹی تو انھیں اپنے فیصلے پراطمینان ہوا ہوگا۔

سابق صدر آصف زرداری پر جو بھی مرضی الزام لگا دیں لیکن یہ بات سب کو تسلیم کرنی چایئے کہ سیاست کی گیم کے اب بھی وہ بڑے کھلاڑی ہیں۔۔ انھیں پتہ ہوتا ہے کہ پتہ کب اور کہاں پھینکنا ہے؟ ۔۔۔ سینیٹ میں چیئرمین کے انتخاب تک انھوں نے بلاول کو مریم نواز اور مولانا کا ہمنوا بنائے رکھا۔۔۔ استعفیٰ استعفیٰ کی گونج پر بلاول اتحاد کے حامی رہے اور آصف زرداری خاموش ۔

پی ڈی ایم کے فیصلہ کن اجلاس میں جب اسلام آباد کی طرف کراچی سے لانگ مارچ شروع کرنے کی باری آئی تو آصف زرداری نے وہ پتہ کھیلا جو کسی کے وہم گمان میں بھی نہ تھا۔۔۔ میاں صاحب آپ واپس آئیں ہم استعفے آ پ کے ہاتھ میں رکھ دیں گے۔۔لیکن جنگ لڑنی ہے تو پھر آپ کو پاکستان واپس آنا ہو گا۔۔۔ جیل بھی جانا ہوگا۔۔۔ یعنی ۔۔ نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی۔

یقینا اس لمحے مریم نواز کو اپنے انکل شہباز شریف کا یہ جملہ یاد آیا ہوگا ۔۔۔ آصف زرداری سے اتحاد کرنا خود کو تباہ کرناہے۔۔مریم نواز کو آصف زرداری کی پیشکش ایڑیوں تک جلا گئی ہوگی۔۔۔پھر نرم لہجوں میں تلخ یادوں کے سلسلوں نے جھنجھوڑا ہوگا۔۔ کیونکہ وہ تو توقع بھی نہیں کرسکتی تھیں کہ اس اہم موقع پر وہ حکومت کے بجائے اتحادیوں کو باونسر دے ماریں گے۔۔۔الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا۔

شروع دن سے ہر زی شعور کو اس انجام کا اندازہ تھا۔۔ یہ الگ بات ہے کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں ۔۔حکومت کی طرف داری کردو تو یوتھیئے کہلاو۔۔۔ اپوزیشن کے حق میں بولو تو پٹواری۔۔تاہم میرے حلقہ احباب میں شامل لوگ بھی میرے تجزیہ کو عمران خان کیلئے نرم گوشہ قرار دیتے رہے۔۔ ۔ ہوتا ہے۔۔ ایسا ہوتا ہے بھائی۔۔ جس سے امیدیں باندھی جائیں یا پیار کیا جائے تو اس کی کوتائیاں نظر نہیں آتیں۔

آصف زرداری صاحب کا فیصلہ بادی النظر میں بھی اور شعوری طور پر بھی بالکل درست ہے۔۔۔ وہ ملکی معیشت چلانے والے اور ملک کے دوسرے بڑے صوبے میں حکمران جماعت ہیں۔۔ ان کو صوبے کے سیاہ سفید پر اختیار حاصل ہے۔۔ ۔ استعفے دے کر انھیں کیا ملناہے؟
حکومت میں ہیں تو صوبے کی انتظامیہ، پولیس دیگر محکمے ان کے تابع ہیں۔۔ استعفے دیں گے تو وہی گھر سے پکڑ کر لے جائیں گے۔

دوسری طرف مریم نوازتحریک میں کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار تھیں۔۔۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کی پارٹی ایسا کرنے کیلئے تیار نہیں تھی۔۔ مریم نواز کو پتہ ہے کہ ۔ مرو یا مرجاو کی پوزیشن میں ہیں۔۔ والد سیاست سے الگ ہوچکے۔۔ بھائی سیاست میں ہیں ہی نہیں۔۔ ابا حضور نے ان کی ذمہ داریوں سے عہدہ براہ ہونے کے بعد خود کو خالی ہاتھ دیکھ کر سیاسی ذمہ داری سونپ دی ۔

ن لیگ میں شہباز شریف کا دھڑا اس محاذ آرائی کے حق میں نہیں ہے۔۔۔۔ یہ بے شک شہر شہر۔ گاوں گاوں میں بینرز لگا دیں کہ ہم سیم پیج پر ہیں لیکن سچ یہ ہے یہ سیم پیچ پر نہیں ہیں۔۔۔ بات استعفوں تک پہنچتی تو انھیں سمجھ آ جاتی کہ وہ کہاں کھڑی ہیں۔۔۔ خوش قسمتی ہے کہ استعفوں کاخطرہ ٹل گیاہے ۔۔اس بات کا امکان موجود تھا کہ ن لیگ کی آدھی پارٹی استعفے دینے سے انکاری ہو جاتی۔

مولانا جس موڈ کے ساتھ پریس کانفرنس چھوڑ کرگئے ہیں ان کی واپسی کاامکان کم ہے۔۔۔ بہتر ہے اپنی ساکھ بچانے کیلئے پی ڈی ایم کی ،،بے اختیار سربراہی،، سے مستعفی ہو جائیں۔۔جس طرح مرد دوسری شادی کے چکرمیں اپنے خاندان میں ناچاقیاں بنا دیتے ہیں اسی طرح مولانا نے۔۔۔ پی ڈی ایم کو خوش رکھنے کیلئے اپنی پارٹی تقسیم کردی۔۔ حافظ حسین احمد نے ساری زندگی جس جماعت کو دی انھیں کیسے اورکس بات پر نکال دیا؟

پی ڈی ایم اگر اب۔۔۔۔ حکومت گراو اتحاد۔۔ کی بجائے مضبوط اپوزیشن کرے تو زیادہ بہتر ہے۔۔ اب احتساب ، مقدمات اور گرفتاریوں سے بچنے والوں کی حمایت میں تحریک چلانے کی بجائے عوام پر رحم کریں۔۔ مہنگائی ۔ حکومتی غلط اقدامات کے خلاف آواز بلند کریں تو یقینا آپ کو شاید کال دینے کی ضرورت بھی نہ پڑے لوگ آپ کیسا تھ کھڑے ہو جائیں گے۔

اب جب کہ بلی نہیں بلکہ۔۔۔ بلیاں تھیلے سے باہر آ گئی ہیں تو آپ بھی سمجھ جائیں کہ عوام بھی شعور رکھتے ہیں۔۔ ہو سکتاہے آپ کے کارکن آپ کے جھوٹ کو بھی سچ سمجھتے ہوں۔۔ ۔ بعض خرچہ لینے والے حامی اینکرز اور صحافی آپ کو پھر منظم کرکے حکومت سے لڑانے کی کوشش کریں لیکن اب کی بار آپ حکومت گرانے کی بجائے ان کی مدت پوری ہونے دیں اور عوام کے ساتھ کھڑے ہو جائیں ان کیلئے آوازبلند کریں ۔

Comments are closed.