آرمی چیف کو توسیع کی سمری پر عدالت مطمئن نہ ہوئی، آج پھر سماعت ہوگی

اسلام آباد(ویب ڈیسک ) آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت آج پھر ہو گی ، عدالت نے کہا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کےلیے جس آرٹیکل میں ترمیم کی گئی وہ آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں۔

بدھ کوچیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت شروع کی تو درخواست گزار ریاض حنیف راہی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کہاں رہ گئے تھے ؟ کل آپ تشریف نہیں لائے، آپ کی درخواست زندہ رکھی۔

ریاض راہی نے کہا کہ حالات مختلف پیدا ہو گئے ہیں۔ جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ ہم انہی حالات میں آگے بڑھ رہے ہیں، آپ تشریف رکھیں۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے موقف اپنایا کہ گزشتہ روز کے عدالتی حکم میں بعض غلطیاں ہیں، آرمی رولز کا حوالہ دیا تھا، عدالت نے حکم نامے میں قانون لکھا، عدالت نے کہا صرف 11 ارکان نے کابینہ میں توسیع کی منظوری دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی فیصلے کی غلطیاں دور کر دی گئی ہیں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اب تو حکومت اس کاروائی سے آگے جا چکی ہے، عدالت نے آپ کی دستاویزات کو دیکھ کر حکم دیا تھا، رول 19 میں وقت مقرر کرنے کی صورت میں ہی ہاں تصور کیا جاتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ‏کل بھی بتایا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹیفکیشن پر متعدد وزرا کے جواب کا انتظار تھا، کابینہ اراکین کو وقت دیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر کابینہ اراکین کا جواب نہ آئے تو کیا اسے ہاں سمجھا جاتا ہے ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ قواعد کے مطابق ایسا ہی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ‏ایسا صرف اس صورت میں سمجھا جاتا ہے جب مقررہ مدت میں جواب دینا ہو، ‏اگر اوپن مینڈیٹ تھا تو چھوڑ دیتے ہیں، ‏آپ نے مدت مقرر نہیں کی تھی لہٰذا آپ کے سوال کا جواب آج بھی ہاں تصور نہیں کیا جا سکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں جنرلز مدت ملازمت میں توسیع لیتے رہے، اس معاملے پر پہلے کبھی کسی نے سوال نہیں اٹھایا، اب سوال اٹھا ہے تو جائزہ لینے دیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ریگولیشن کے 262 اے میں پاک فوج کے جوانوں کی ریٹائرمنٹ سے متعلق بتایا گیا ہے، آرٹیکل 243 کے مطابق صدر مملکت افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں اور وزیراعظم کی ایڈوائس پر افواج کے سربراہ تعینات کرتے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 243 میں تعیناتی کا ذکر ہے، کیا اس میں تعیناتی کی مدت کا بھی بتایا گیا ہے ؟ کیا ریٹائرڈ جنرل کو آرمی چیف بنایا جاسکتا ہے؟

جواباً اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے کہیں بھی نہیں کہا کہ ان سے غلطی ہوئی، اپنے دلائل مکمل کر کے عدالتی سوالات کے جواب دوں گا، آرمی ریگولیشن آرمی ایکٹ کے تحت بنائے گئے۔ تعیناتی کی مدت نوٹیفکیشن میں لکھی جاتی ہے جو صوابدید ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ماضی میں آرمی چیف 10، 10 سال تک توسیع لیتے رہے، آج یہ سوال سامنے آیا ہے، اس معاملے کو دیکھیں گے، تاکہ آئندہ کیلئے کوئی بہتری آئے، تاثر دیا گیا کہ آرمی کی چیف کی مدت 3 سال ہوتی ہے۔ آرمی ریگولیشنز کے مطابق ریٹائرمنٹ کر کے افسران کو سزا دی جا سکتی ہے.
حال ہی میں 3 سینیئر افسران کی ریٹائرمنٹ معطل کر کے سزا دی گئی تھی۔ جو صفحات آپ نے دیئے وہ نوکری سے نکالنے کے حوالے سے ہیں، یہ نئی ریگولیشن کس قانون کے تحت بنی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمے کے دوران کہا کہ آپ نے آج بھی ہمیں آرمی ریگولیشنز کا مکمل مسودہ نہیں دیا.

آرمی چیف کی مدت 3 سال کہاں مقرر کی گئی ہے، کیا 3 سال بعد آرمی چیف گھر چلا جاتا ہے ؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں پوری کتاب کو دیکھنا ہے ایک مخصوص حصے کو نہیں، آرمی ریگولیشن رول 255 ریٹائرڈ افسرکو دوبارہ بحال کر کے سزا دینے سے متعلق ہے، ہمیں اس تناظر میں دیکھنا ہے کہ 3 سال بعد کیا ہونا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 255 اے کہتا ہے دوران جنگ آرمی چیف کسی کی ریٹائرمنٹ کو روک سکتا ہے، یہاں آپ چیف کو سروس میں برقرار رکھ رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ تعیناتی کی تعریف میں دوبارہ تعیناتی بھی آتی ہے، آرٹیکل 255 میں ایک ایسا لفظ ہے جو اس معاملے کا حل ہے، اس آرٹیکل میں حالات کے تحت اگر ریٹائرمنٹ نہ دی جاسکے تو دو ماہ کی توسیع دی جاسکتی ہے، 1948 سے آج تک تمام آرمی چیف ایسے ہی تعینات ہوئے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی رولز سے متعلق دستاویزات سے مطمئن نہیں ہوں، دوران جنگ ممکن ہے افسران کو ریٹائرمنٹ سے روکا جاتا ہے، آئینی عہدے پر تعیناتی میں توسیع آئین کے تحت نہیں، عارضی سروس رولز کے تحت دی گئی، بظاہر تعیناتی میں توسیع آرمی ریگولیشنز کے تحت نہیں دی گئی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اصلی نوٹیفکیشن عدالت کے سامنے پیش کر دیتا ہوں، آرمی چیف کی مدت ملازمت کا تعین کرنے والی مجاز اتھارٹی سے متعلق قانون خاموش ہے، یہ بات درست نہیں کہ ہم نے 2 مرتبہ تعیناتی کی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارا سوال ہے کہ تعیناتی میں مدت ملازمت کہاں سے آتی ہے، 243 تعیناتی ہے اور رول 255 دوبارہ تعیناتی ہے، آرمی ایکٹ میں سپہ سالارکی مدت تعیناتی کے متعلق کچھ نہیں، اگر آرمی ایکٹ میں مدت تعیناتی نہیں تو رولز میں کیسے ہوسکتی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت کو فوج کی کمانڈ اور سروس کے حوالے سے رولز بنانے کا اختیار ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ رولز آرمی ایکٹ کی دفعہ 176 اے کے تحت بنائے گئے، آج 184/3 کے حوالے سے رولز فل کورٹ اجلاس میں زیر بحث آئیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آج دو بجے فل کورٹ میٹنگ بھی ہے کیا اٹارنی جنرل اس کے بعد دلائل دینا چاہیں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج ہی سماعت کریں، رات تک دلائل دے سکتا ہوں۔

جب وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ نے کہا آرمی چیف کی مدت تعیناتی پر آئین خاموش ہے تو دوبارہ تعیناتی کس قانون کے تحت ہو گی، آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کی صوابدید ہے، اصل مسئلہ آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا آرمی ایکٹ کو سمجھے بغیر ہمیں دلائل کیسے سمجھ آئیں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں تمام سوالوں کے جواب دوں گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو اجازت دیتے ہیں، جو بولنا چاہتے ہیں، ہم قانونی نکات پر بات کریں گے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو قانون پر اتنا سخت نہیں ہونا چاہیئے، بعض اوقات سختی سے چھڑی ٹوٹ جاتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کی صوابدید ہے، اصل مسئلہ آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کا ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ آرمی چیف کی مدت تعیناتی کیا ہو گی، اگر دوبارہ تعیناتی کی جائے تو وہ کس قانون کے تحت ہو گی، کیا ریٹائرمنٹ کے بعد ریٹائرڈ جنرل کو دوبارہ آرمی چیف بنایا جا سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے مزید دلائل دیئے کہ آرمی چیف کی تعیناتی آرٹیکل 243 کے تحت ہوتی ہے، تعیناتی کی مدت کو 1947 کے کنونشن سے اخذ کیا جاتا ہے، عوام کو آگاہ کروں گا تعیناتی کی مدت کا تعین کیسے ہوتا ہے، آرمی ایکٹ کا اطلاق تمام افسران پر ہوتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا بتائیں آرمی ایکٹ میں کہاں لکھا ہے اچھے افسر کو توسیع دے دیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا رولز 176 میں یہ چیزیں بتائی گئی ہیں ۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا 176 میں صرف رولز ہیں افسران کی مدت میں توسیع کا ذکر نہیں ہے ۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا اچھی کارکردگی والے افسرکو کس قانون کے تحت برقرار رکھا جاتا ہے ؟ آپ نے آرمی ایکٹ، ریگولیشنز میں توسیع سے متعلق شق نہیں بتائی۔ اٹارنی جنرل نے کہا مدت تعیناتی میں توسیع کا ذکر رولز میں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ایکٹ میں ایسا کچھ نہیں کسی بہت قابل افسر کو ریٹائر ہونے سے روکا جائے۔

اٹارنی جنرل نے کہا مدت ملازمت کا زکر رولز میں ہے ایکٹ میں نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا آرمی ایکٹ میں مدت اور دبارہ تعیناتی کا ذکر نہیں، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا بھی ذکر ایکٹ میں نہیں۔

بعد میں عدالت نے سماعت آج تک ملتوی کردی تھی ، ذرائع کے مطابق حکومت کی طرف سے نئی سمری بھی آسکتی ہے.یاد رہے آج رات آرمی چیف کی پہلی مدت ملازمت بھی ختم ہو رہی ہے.

Comments are closed.