ہزارہ کی دم توڑتی ثقافت


مانسہرہ : 9ستمبر 2019

محبو ب الرحمان تنولی

تصاویر سوشل میڈ یا۔

دنیا بھر کے ہر خطے کی طرح ہزارہ ڈویژن کا اپنا رنگ ، تہذیب تمدن اور رسم ورواج ہیں ،بہت ساری روائتیں دم توڑ رہی ہیں تو دو دہائیاں پہلے تک کی مقامی ثقافت کوبھی جدید مشینری کھا چکی ہے۔

پن چکی

ہزارہ ڈویژن میں گندم کی کٹائی کے عمل سے لے کر دانے اور پوہ سنبھالنے تک ایک منفرد انداز ہوا کرتا تھا جو کہ اب ناپید ہو تاجارہاہے،گندم بوائی میں بیلوں کی کئی کئی جوڑیاں اکٹھی ہو کر کھیتوں میں ہل چلاتی تھیں، عزیز و اقارب خصوصی طور پر اکٹھا ہو کر یہ عمل مکمل کرتے تھے۔

ہر گھر میں بیلوں کی جوڑی ، ہل، جونٹ ، درانتیاں،بیلچے، جانوروں کی زیبائش کےلئے ٹلیاں، گھنگھرو اور پٹے اپنی انفرادیت کی مثال آپ تھے،ٹاہکوں میں جانور چرانے اور بانڈیوں میں باندھ لینے کے موسم سب کو پتہ ہوتے تھے۔

گندم پنجائی کا بھی اپنا انداز تھا ، لوگ دس بارہ ڈنگر ایک جگہ قطار میں باندھ کر گندم کی فصل کھلاڑوں میں جمع کرکے گائی کرتے تھے تو کچھ لوگ بیلوں کی جوڑیوں کے پیچھے کانٹوں کی گانٹھوں پر بڑا پتھر باندھ کر ٹینگریاں پھیر کر گائی کرتے تھے اس کےلئے بیک وقت پانچ پانچ جوڑیاں بھی استعمال کرتے ۔ گائی کے بعد سانگی سے بھوسہ اور دانیں ایک جگہ اکٹھے کر لیتے تھے۔

ہوا کے زریعے بھوسا یعنی ، پو، اڑا کر گندھ کو الگ کیا جاتا تھا، مکئی کی فضل ہو تو ایک کمرے میں مکئی کے سلٹے اکٹھے کرکے سوٹوں(ڈانگوں) سے مکئی کے دانے تکوںسے الگ کئے جاتے ۔ اس کےلئے گھروں میں نوجوان لڑکے اکٹھے ہو کر یہ عمل بجا لاتے ، ہنسی مزاق بھی چلتا اور رات کے آخری پہر حلوے سے شرکاءکی خاطر مدارت ہوتی تھی۔

گندم کا تیسر ا مرحلہ اس کا آٹا بنانا ہوتا اور لوگ گدھوں پر اور سر پر بوریاں لاد کر پانی سے چلنے والی پن چکیوں پر لے جاتے جھنیں مقامی زبان میں جندر کہتے تھے، اکثر دانے زیادہ ہو ں تو واری لگو ا کر واپس آ جاتے اور جندر چلانے والے( راکھا) کی بتائی تاریخ پر پھر جاتے تھے، گندم پسوائی کے دوران کئی دفعہ لوگوں کو پوری پوری رات انتظار میں گزر جاتی تھی۔

شادی ہو تو دلہن کو سسرال لے جانے کےلئے ڈھولی کااستعمال کرتے تھے یہ رسم اب بھی تقریباً زندہ ہے، اسی طرح گھاس کٹائی کے موسم یعنی ،،سرہڈ ،، کے دنوں میں لوگ اکٹھے ہو کر گھاس کاٹتے جسے حثر کہتے ہیں اور اس کےلئے ٹاہکوں میں مکئی کی روٹی ، تڑکے والی چٹنی ، مکھن، ساگ، دودھ اور مکئی کے سلٹے خصوصی سوغات سمجھی جاتی تھی۔

لوگ دور دراز سے مکان بنانے کےلئے درختوں کے بڑے تنے یا گڈ ے لے کر آتے ہوں یا کچے مکان پر چھت پڑنی ہو ۔ اس کےلئے عزیز و اقارب اور یار بیلیوں کی ٹولیاں ایک دوسرے کی مدد کرتی تھیں۔ جج اور جنازہ کو تو ہزارہ کے مضافات میں ہمیشہ سانجھا سمجھا جاتا تھا۔

کسی اہم فگشن یا شادی کی تقریب میں گتکے کھیلنا حربی ہنر سمجھا جاتا تھا، اسی طرح شادی کے موقع پر ایک بلند درخت پر سوئی باندھ کر اسے بندوقوں سے نشانہ بنایا جاتا تھا اور اس نشانے کے عمل کو ٹمن باندھنا کہا جاتا تھا۔شادی میں تیل لگا کٹ کا کٹورہ دولہے کے ساتھیوں سے اٹھوانا اور بعض دیگر رواج اس علاقے میں بسنے والے کھتریوں کی باقیات بھی تھیں۔

گاوں میں فوتگی ہو جائے تو دو دو مہینے تک کسی کے گھر ریڈیو آن نہیں ہوتا تھا، ماتم والے گھر چالیسویں تک گاوں کے لوگ اور رشتہ دار کھانا پہنچاتے تھے۔ مرنے والے کی خیرات ہو یا شادی کا کھانا۔ نقارے بجا کر اعلانات کئے جاتے تھے کہ کھانا تیارہے اپنا کھا لیں اور گھر والوں کا لے جائیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ یہ معاشرتی بندشیں یا اقدار بھی ختم ہوتی جارہی ہیں، کہیں ختم ہو چکی ہیں تو کہیں خاتمے کے قریب ہیں، ہندکو بولی بھی انحطاط کا شکارہے، زیادہ تر پڑھ لکھ جانے والے لوگ احساس کمتری میں اپنے بچوں کو ہندکو میں بات بھی نہیں کرنے دیتے ، اسی وجہ سے سدا بہار ہندکو محاورے بھی اپنی موت آپ مررہے ہیں۔

مرحوم پروفیسر صابر کلوروی جو کہ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے ایچ او ڈی بھی تھے ہندکو کو زندہ رکھنے کےلئے تمام عمر تگ و دو کرتے رہے قلندر آباد میں اپنے گھر کے اندر بڑی لائبریری بنا رکھی تھی لیکن ان کی موت کے ساتھ ہی تحقیق کا عمل بھی رک گیا۔

پنجاب ، سندھ اور کے پی کے میں مقامی زبانیں بطور نصاب پڑ ھائی جاتی ہیں لیکن کئی کروڑ افراد کی یہ ماں بولی ،، ہندکو ، لا وارث ہوتی جارہی ہے۔ نہ کسی کو زبان کی بقاءکی فکر ہے اور نہ ہی رسم رواج زندہ رکھنے کی ، ایبٹ آباد تعلیمی بورڈ، ہزارہ یونیورسٹی اور تعلیم سے وابستہ لو گ چائیں تو یہ ورثہ سنبھال سکتے ہیں ۔

سب سے بڑھ کر بڑوں کا احترام، گاوں اور قریبی مضافات کی اقدار کی پاسداری، غمی خوشیوں میں شرکت ہزارہ ڈوژن والوں کا امتیازی وصف تھا لیکن یہ بھی آج کل مفادات سے منسلک ہو کر رہ گیاہے ، موبائل نے جہاںمعاشرے کو سکیڑ کررکھ دیا ہے وہاں کئی اخلاقی قدروں پر اس شیطانی مشین نے جھاڑو پھیر دیا ہے۔

ہندکو کی اپنی ڈکشنری بہت ضروری ہے اس کےلئے ہزارہ کے تمام اضلاع سے تعلیمی ماہرین کی بڑی ٹیم بنائی جائے جو کہ ہندکو زبان، روایات، الفاظ، محاورے، اور رسم ورواج کو تاریخ میں زندہ رکھنے کا کام کرے، عام آدمی کےلئے یہ کہنا یقینا مشکل کام ہے لیکن اگر حکومتی سطح پر اگر کوشش کی جائے تو یہ کام اتنا مشکل نہیں ہے۔

مقامی لوگ گیت، مائیے ، دوہڑے،جگتیں، چاربیتے سب پر مشکل آن پڑی ہے۔۔ بیڑہ غرق ہو اس ، لو یو ،، کا ۔۔ جس نے،، لو ،،کو زندگیوں سے نکال دیا ہے ۔ چٹے چنے دی چانڑیں، پہاڑوں میں گونجتی آواز ۔۔ شادیوں میں سیجا چڑھنے کا سہرا۔۔ ہندکو ۔کبھی کھبی تم بہت یاد آتی ہو ۔

Comments are closed.