سینیٹ الیکشن،ہارس ٹریڈنگ کے خاتمہ کیلئےشوآف ہینڈز چاہتے ہیں

اسلام آباد(زمینی حقائق ڈاٹ کام)وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات شبلی فراز نے کہا ہے سینیٹ کے انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے شو آف ہینڈز کے ذریعے سینیٹرز کا انتخاب کروانا چاہتے ہیں، اس کے لیے سپریم کورٹ سے رہنمائی لی جائے گی۔

اسلام آباد میں کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں شبلی فراز نے کہا کہ ماضی میں سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگتے ہیں اور بات طے ہوجاتی ہے کہ خرید و فروخت ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا انتخابات کی شفافیت کے لیے سپریم کورٹ نے مختصر حکم جاری کیا تھا، جس کی بنیاد پر ہم نے اسمبلی میں ایک بل پیش کیا تھا اور آج اس پر بحث ہوئی کہ کس طرح اس بل کو منظور کرواسکتےہیں، آئینی ترمیم، ایگزیکٹیو آرڈر یا الیکشن کمیشن کے ذریعے ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے طے کیا کہ آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ سے رہنمائی لیں گے جس کے لیے ہمارا مدعا ہے کہ شو آف ہینڈز کے ذریعے انتخابات ہوں۔

شبلی فراز نے کہا کہ اس سے پہلے کسی حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی حالانکہ حکومت کے پاس وسائل ہوتے ہیں اور سینیٹ کو متاثر کر سکتی ہے لیکن کوئی حکومت اس طرح نہیں کرتی جس طرح ہم کر رہے ہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات شفاف اور مصدقہ ہوں تاکہ اس میں وہی لوگ آئیں جو مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہوں۔ ہمیں امید ہے کہ سینیٹ کے انتخابات سے کافی پہلے سپریم کورٹ سے ہمیں رہنمائی ملے گی.

شبلی فراز نے کہا کہ اس دوران اگر اسمبلی کا اجلاس ہوا تو وہاں سے منظور کروانے کی کوشش کریں گے کیونکہ یہ سب جماعتوں کے مفاد میں ہے۔

کابینہ اجلاس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تناظر میں بات ہوئی جس میں وزارت خزانہ کی طرف سے بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ صوبوں کو آبادی کے تناسب سے دیے جانے والے پیسوں کے طریقہ کار کی خوبیوں اور خامیوں پر کابینہ اراکین نے بات کی ہے.

اور یہ بات بھی سامنے آئی کہ وفاق جو پیسے صوبوں کو دیتا ہے اور صوبہ جو فنڈ پیدا کرتا ہے اس میں کوئی بنیادی سقم ہے، جس کی وجہ سے صوبائی حکومتوں کے پاس ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے کہ اپنے سرمایے کو بڑھائے کیوں کہ اہم شعبے صوبوں کو دیے جاچکے ہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پنجاب کو این ایف سی ایوارڈ 2021 میں ایک اعشاریہ 441 کھرب روپے ملتے ہیں، جس میں ان کا اپنا سرمایے کو حصہ 306 ارب روپے کا ہے.

سندھ کو 764 ارب روپے ملتے ہیں اور ان کا اپنا سرمایہ 314 کے قریب ہے، خیبر پختونخوا کو 602 ارب ملتے ہیں اور اپنا سرمایہ 50 ارب کے قریب ہے، اسی طرح بلوچستان کو 282 ارب روپے ملتے ہیں اور 51 ارب صوبائی سرمایہ ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبوں کو یہ پیسے ملتے ہیں لیکن اس کا کوئی میکنزم نہیں ہے کہ کس طرح خرچ ہوں گے، ماضی کی حکومتوں یہاں تک ہماری حکومت میں بھی ان پیسوں کے خرچ کا حساب نکال لیں تو بھی ایک طریقہ کار ہونا چاہیے.

شبلی فراز نے کہا اٹھارویں ترمیم کے بعد ایسے مسائل سامنے آئے ہیں جن کو حل کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ صوبائی حکومت کے پیسوں کا طریقہ کار اور کوئی احتساب بھی ہو۔

انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اٹھارویں ترمیم کو ختم کریں لیکن جو سقم رہ گئے ہیں ان کا جائزہ لینے چاہیے، صوبائی خود مختاری سے متعلق جو چیزیں ہیں ان میں دیکھنا چاہیے کہ کن چیزوں پر ہمیں کام کرنا اور کن چیزوں کو بہتر کرنا ہے کیونکہ ملک میں کوئی وبا آتی ہے تو وفاق کو فنڈز دینے ہوتے ہیں۔

شبلی فراز نےکہا اس کی وجہ سے وفاقی حکومت کے پاس زیادہ فنڈ نہیں بچتا اور پھر تنخواہیں اور اخراجات کے لیے ہمیں قرضہ دینا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے ریلیف فنڈ پر بھی بات ہوئی، جس میں اپریل 2020 میں قائم ہونے والا کووڈ فنڈ بھی شامل ہے، اس میں 4۔8 ارب عطیہ کیا گیا تھا، 3۔8 ارب مقامی ذرائع سے جمع کیے گئے اور ایک ارب کے قریب بین الاقوامی ڈونرز نے دیے۔

Comments are closed.