پولنگ ایجنٹ کے انتخابی حلقہ ہی سے ہونے کے قانون میں ترمیم پر اعتراضات کیس، فیصلہ محفوظ
فائل:فوٹو
اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پولنگ ایجنٹ کے انتخابی حلقہ ہی سے ہونے کے قانون میں ترمیم پر اعتراضات کیس پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
الیکشن کمیشن نے پولنگ ایجنٹ کے انتخابی حلقہ ہی سے ہونے کے قانون میں ترمیم پر اعتراضات کے کیس کی سماعت ہوئی۔
سماعت کے موقع پر تحریک انصاف کراچی کے رکن صوبائی اسمبلی کی وکیل الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے اور موٴقف اختیار کیا کہ جہاں ووٹر رہتا ہے، وہاں کا پولنگ ایجنٹ ہونا خطرے سے خالی نہیں۔ بطور پی ٹی آئی ووٹر اور سپورٹر کوئی خود کو ایم کیو ایم کے سامنے ایکسپوز نہیں کر سکتا۔ خود کو ایم کیو ایم کے سامنے ایکسپوز کرنا خطرے سے خالی نہیں۔
وکیل عابدہ بخاری نے دلائل میں کہا کہ دوسری یونین کونسل سے ووٹر ہو تو اس کی تفصیلات کا مخالفین کو علم نہیں ہوگا۔ ملک میں شرح خواندگی کم ہے، اس لیے بھی پولنگ ایجنٹس کے لیے علاقہ مختص نہیں کیا جا سکتا۔
الیکشن کمیشن کے ممبر سندھ نثار درانی نے کہا کہ کیا پی ٹی آئی کے پاس پولنگ ایجنٹ بننے کے لیے مقامی لوگ نہیں ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ لوگ ہونا مسئلہ نہیں، بات بنیادی حقوق اور قانون کی ہے۔ امیدوار کے لیے حلقے سے ہونا ضروری نہیں تو پولنگ ایجنٹ کے لیے کیسے ہو سکتا؟۔
رکن پختونخوا اکرام اللہ نے کہا کہ پولنگ ایجنٹس کا کام مقامی ووٹرز کی پہچان ہوتا ہے تاکہ جعلی ووٹ نہ ڈل سکے۔ باہر سے آیا پولنگ ایجنٹ مقامی ووٹرز کو کیسے جانتا ہوگا؟۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جس علاقے میں میرا ووٹ ہے میں وہاں نہیں رہتی۔ میرے علاقے کا پولنگ ایجنٹ مجھے کیسے پہچان سکتا ہے؟۔
چیف الیکشن کمشنر نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ اجنبی پولنگ ایجنٹ پولنگ اسٹیشن میں کیا کرے گا، جب وہ کسی کو جانتا ہی نہیں ہوگا۔ ووٹرز کی اکثریت وہاں ہی رہتی ہے جہاں ان کا ووٹ ہو۔
جماعت اسلامی کے وکیل سیف اللہ گوندل نے اپنے دلائل میں کہا کہ کراچی بلدیاتی الیکشن کے لیے پولنگ ایجنٹس کی تیاری مکمل کر چکے ہیں۔ انتخابات سے چند دن پہلے رولز میں ترمیم سے سیاسی جماعتوں کو مشکلات ہوں گی۔ رول میں ترمیم کو عام انتخابات سے لاگو کیا جائے۔
ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے کہا کہ قانون کے تحت حلقے میں ایک الیکشن ایجنٹ ہوتا ہے وہ بھی حلقے سے ہونا لازمی ہے۔ الیکشن ایجنٹ حلقے سے ہونا لازمی ہے تو پولنگ ایجنٹ بھی مقامی ہونا چاہیے۔
ممبر کے پی نے سوال کیا کہ کیا رولز میں ایسی ترمیم کی جا سکتی ہے کہ وہ ایکٹ کا حصہ نہ ہو؟ جس پر ڈی جی لا نے بتایا کہ رولز میں ترمیم کرنا کمیشن کا اختیار ہے۔ تجویز اور تائید کنندہ حلقے سے نہ ہو تو امیدوار کے کاغذات منظور نہیں ہوسکتے۔
ممبر بلوچستان نے کہا کہ بعض علاقوں میں کسی کی جرات نہیں کہ دوسرے کا پولنگ ایجنٹ بن سکے۔ ایم کیو ایم کا کسی دور میں سلسلہ تھا کہ کسی دوسرے کو پولنگ ایجنٹ نہیں ملتے تھے۔
دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے رول 58 میں ترمیم پر اعتراضات پر سماعت مکمل کر تے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
Comments are closed.