سیلاب زدہ علاقوں میں ہلال احمرکی امدادی سرگرمیاں
وقار فانی
امسال جون میں طویل مون سون کے دوران ریکارڈ بارش ہوئی جس نے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے اور ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا۔ ملک کے جنوبی اور وسطی حصے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ نالوں سے بہنے والا سیلابی پانی سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے 80 فیصد سے زیادہ علاقے ڈبو چکا ہے،ایسے میں سیلاب زدہ علاقوں میں ہلال احمرکی امدادی سرگرمیاں جاری ہیں.
پانی کھڑا ہے اور طرح طرح کی بیماریاں بھی پھوٹ رہی ہیں۔نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کی تازہ ترین شائع رپورٹ بتاتی ہے کہ بارشوں، سیلابوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اثرات جیسے کہ لینڈ سلائیڈنگ سے ملک بھر میں تقریباً 33 ملین افراد متاثر ہوئے ہیں۔ جون سے ستمبر 2022 کے درمیان کم از کم 1693 افراد جانبحق ہوئے جن میں 629 بچے شامل ہیں اور 12,865 افراد زخمی ہوئے،2 ملین کے قریب مکانات کو جزوی نقصان پہنچا یا مکمل تباہ ہوئے۔
ذرائع معاش بھی بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں، 1,067,241 سے زیادہ مویشی بھی ہلاک ہوئے جو بہت سے خاندانوں کی روزی اور معاش کا ایک اہم ذریعہ تھے۔ سیلاب نے پنجاب اور سندھ کے بڑے حصے کو جھیلوں میں تبدیل کر دیا ہے۔.9 7ملین لوگ بے گھر ہو ئے اور600,000 لوگ ریلیف کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔سندھ میں 1.5 ملین سے زیادہ مکانات کو نقصان پہنچا۔
13,000کلومیٹر پر محیط شاہرائیں تباہ ہوئیں،410 پل پانی بہا کر لے گیا۔23,900 سکول اور 1460 ہیلتھ سنٹرزملیا میٹ ہوئے۔
پانچ ہزار سے زائد تعلیمی اداروں کو عارضی ریلیف کیمپس کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 35 لاکھ بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی اور سیکھنے کے عمل میں خلل پڑا۔تقریباً 800,000 افغان مہاجرین خیبر پختونخوا اور پنجاب کے ان اضلاع میں رہتے ہیں جنہیں سرکاری طور پر ”آفت زدہ“ قرار دے دیا گیا ہے۔ صرف سندھ میں مبینہ طور پر 1.2 ملین ہیکٹر سے زیادہ زرعی اراضی کو نقصان پہنچا ہے۔پھلوں کے باغات اور کھڑی فصلیں پانی کی نذر ہو گئی ہیں۔
صحت کے لیے اہم خطرات، بشمول پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں جیسے ہیضہ اور اسہال، جو بہت سے بچوں کی موت کا باعث بن سکتے ہیں۔ دیگر خطرات میں پرہجوم امدادی کیمپوں میں ملیریا، COVID-19 اور ڈینگی کا پھیلنا شامل ہے۔ سیلاب نے پینے کے پانی کی فراہمی کو تباہ کر دیا ہے تقریباً 80% خاندانوں کے پاس صاف پانی کی کمی کی اطلاع ہے – اور بہت سے لوگوں کے پاس غیر محفوظ یا آلودہ پانی پینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو نقد امداد، پناہ گاہوں کی مرمت، کھانے پینے کی اشیاء، صاف پانی، ادویات کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کے بہت سے قصبے اور آبادیاں اب بھی سیلابی پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں اور ہزاروں گھرانوں کو ابھی تک خشک زمین نظر نہیں آ رہی۔ تاہم سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔حکومتی اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ اب تک 2.8 ملین افراد کو نقد امداد دی جا چکی ہے۔
ہلال احمر پاکستان وطن عزیز کاصف اول کا انسانی ہمدردی،خدمت کا ادارہ ہے۔ یہ رضاکاروں کے ذریعے انسانی طاقت کو متحرک کر کے انسانی مصائب کو روکنے اور ان کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔ تحریکی شراکت داروں کے تعاون سے ہلال احمر پاکستان نے ہمیشہ متاثرہ آبادی کو مدد فراہم کی ہے۔ ہلال احمر بلا رنگ و نسل،بلا امتیاز،بلا تفریق ہر متاثرہ خاندان کی خدمت کر رہا ہے۔
ہلال احمر پاکستان کا بڑا مقصد آفات اور صحت کی ہنگامی صورتحال سے پہلے، اس کے دوران اور بعد میں کام کرنا ہے تاکہ ضروریات کو پورا کیا جا سکے اور کمزور لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنایا جا سکے۔
ہلال احمر کے 500 رضا کار سندھ اور بلوچستان میں امدادی کاموں میں مصروف عمل ہیں۔لاڑکانہ کے متاثرہ 500گھرانوں میں امدادی سامان تقسیم کیا گیا جبکہ جیکب آباد میں بھی اِس حوالے سے تقریب سینٹ جونز گرامر سکول میں منعقد کی گئی جسں میں 500 گھرانوں میں امدادی سامان تقسیم کیا گیا۔
تقریب میں ایم پی اے جناب محمد اسلم آبڑو نے شرکت کی۔ہلالِ احمر پاکستان کے چیئرمین سردار شاہد احمد لغاری نے بنفس نفیس متاثرہ افراد میں امدادی پیکیج تقسیم کیا۔ امدادی پیکیج میں گھریلو ضرورت کا سامان جس میں کچن سیٹ، 2 تارپولین شیٹس، 2 کمبل اور ٹینٹ شامل ہے۔
ہلالِ احمر دکھی انسانیت کا مرہم ہے، ہم اپنے موومنٹ پارٹنرز اور دیگر اداروں کے اشتراک سے تعمیر نو، بحالی کیلئے مربوط حکمت عملی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ریسکیو، ریلیف میں ہلالِ احمر پاکستان نے گرانقدر کام کیا ہے۔
اس طرح عیدگاہ شیخ زید کالونی لاڑکانہ میں منعقدہ تقریب میں بھی سردار شاہد احمد لغاری نے متاثرہ افراد میں امدادی پیکیج تقسیم کیا۔دریں اثناء ترک ہلال احمر (ترک ریڈ کریسنٹ) کے صدر جناب ڈاکٹر کریم کنک اور ہلال احمرپاکستان کے چیئرمین سردار شاہد احمد لغاری نے انٹرنیشنل فیدریشن کے انڈر سیکرٹری زاوئیر کیٹسولونا اور پیٹر پی ہوف کے ہمراہ سندھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا تفصیلی دورہ کیا۔
ضروریات اور مسائل کا بغور جائزہ لیا۔ضلع سجاول میں سیلاب زدگان میں خیموں سمیت دیگر ضرورت کا امدای سامان بھی تقسیم کیا۔ مصیبت زدہ خاندانوں کو حفظان صحت کی کٹس اور راشن پیک دئیے گئے۔
ضلع دادو اور خیر پورمیں کویت ہلال احمر کے تعاون سے سیلاب سے متاثر ہ خاندانوں میں امدادی سامان تقسیم کیا۔ امدادی سامان میں حفظان صحت کی کٹس، ترپالیں، کمبل، مچھر دانیاں، اور فیملی ٹینٹ شامل تھے۔
دادو سمیت سیلاب متاثرہ اضلاع میں ہلال احمر کی جانب سے لگائے گئے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس سے یومیہ 15,000 گیلن فی پلانٹ پینے کا صاف شفاف پانی فراہم کیا جارہا ہے۔دادو میں امدادی سامان کی یہ تیسری کھیپ تھی جو بطریق احسن تقسیم کی گئی۔
اسی طرح سوات، نوشہرہ اور چارسدہ،ڈیرہ اسماعیل خان،ٹانک،کرک،اپر دیر،لوہر دیر میں بھی طبی سہولیات فراہم کی گئیں، امدادی سامان تقسیم ہوا اور گلگت بلتستان کے سیلاب متاثرہ لوگوں کی بھی مدد کی گئی۔ ہلال احمر کاہر فرد بشمول انتظامیہ، عملہ اور رضاکار سیلابی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے چوبیس گھنٹے کام کر رہے ہیں اور اب تک 266,275 متاثرین کو ہنگامی امداد دی جا چکی ہے۔ہلال احمر کا تمام عالمی اور مقامی امدادی اداروں سے روابط جاری ہیں۔12,141 خیمے تقسیم کئے گئے ہیں۔23ہزار سے زائد متاثریں کو طبی سہولیات بہم پنچائی گئی ہیں۔
آج بھی سات موبائل ہیلتھ یونٹس کے علاوہ 17 مقامات پر میڈیکل کیمپ مکمل فعال ہیں۔ایک لاکھ اکانوے ہزار سات سو چار(191,704) متاثرین سیلاب میں 10 ہزار سے زائد فوڈ پارسل،97 ہزار سے زائد پکا پکایا کھانا،16 ہزار سے زئد مچھر دانیاں،14 ہزار سے زائد ہائجین کٹس،54 ہزار سے زائد غیر خوراکی اشیاء (کمبل،جیری کین،تارپولین شیٹس،کچن کا سامان وغیرہ) تقسیم کر دیا گیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔
متاثرہ علاقوں میں 5ملین لیٹر صاف شفاف اور پینے کے قابل پانی فراہم کیا جا چکا ہے۔سندھ،بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس روزانہ کی بنیاد پر فی پلانٹ 80,000 لیٹر صاف پانی مہیا کر رہے ہیں۔لاڑکانہ میں قائم دسترخوان سے روزانہ چھ ہزار متاثرین کو پکا پکایا کھانا فراہم کیا جا رہا ہے۔
Comments are closed.