قلعہ دیدار سنگھ کا محرومیاں بانٹتا سکول
نعیم اصغر
ہاتھ میں” چڑیا“پکڑے اس بچے کی کوفت اور اذیت کو شاید آپ نہ سمجھ سکیں۔۔۔لیکن میں سمجھ سکتاہوں ،کیونکہ اس اذیت سے میں خود گزرچکاہوں۔۔اسی جگہ،اسی حالت میں اکثرآدھاآدھاگھنٹہ کھڑے رہتے اور یا پھر سکول سے باہر کو دوڑلگاناپڑتی تھی وہ بھی اگر بریک ٹائم ہوتو۔
یہ ایک سرکاری سکول کے اندرکی تصویرہے ،جو گوجرانوالہ سے صرف آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے، گورنمنٹ ہائی سکول نمبر2قلعہ دیدارسنگھ۔۔۔جی ہاں میری مادرعلمی،میری پہلی درسگاہ۔۔۔جہاں سے 1999میں راقم الحروف نے اپنامیٹرک پاس کیا،یعنی آج سے بیس سال پہلے۔۔۔۔تو آپ پوچھیں گے بیس سال پہلے بھی اس سکول کے یہی حالات تھے تو جواب ہے۔۔جی ہاں۔۔شاید اس وقت کچھ بہترہی ہوں گے کیونکہ اس وقت یہ بیت الخلاء دوچارسال پہلے ہی بنے تھے۔
یعنی 1996یا97میں بنے ہوں گے۔۔۔اس سے پہلے جب میں نے دوسری جماعت میں سکول میں داخلہ لیا اس وقت اس سکول کی چاردیواری بھی نہیں تھی۔۔۔کھلے آسمان کے نیچے ہماری کلاس لگتی تھی (کیونکہ کمرے صرف پانچویں سے اوپر کی جماعتوں کیلئے تھے،پرائمری کی تمام کلاسیں کھلے آسمان تلے ہی ہوتی تھیں)اور پھرسورج کے بے رحم تھپیڑوں سے بچانے کیلئے گراوٴنڈمیں لگے درخت کی چھاوٴں ہی میسرتھی، درخت کاسایہ جدھر جدھر جاتاتھا ادھر ادھرپوری کلاس بھی سرکتی جاتی تھی ،یعنی صبح کلاس درخت کے مغرب کی جانب ہوتی تھی تو چھٹی کے وقت کلاس درخت کے مشرق کی طرف ۔
ہم لوگ دعاکرتے تھے کہ بارش ہوجائے ۔۔کیونکہ بارش ہوتی تھی تو اکثرہمیں چھٹی دے دی جاتی تھی۔۔شدید سردی یاگرمی میں کھلے آسمان تلے یہ دن بھی ہم نے گزارے ہیں،پینے کا پانی تو سکول میں لگے دوہتھ نلکوں سے پی لیتے تھے تاہم رفع حاجت (پیشاب یاپاخانہ ) عذاب ہوتی تھیں۔۔۔ایک عرصہ تک سکول کے باہر ایک سڑک، پھر دوسری بڑی سڑک عبور کرکے رفع حاجت کیلئے کھیتوں میں جانا پڑتا تھا۔۔ جو کسی بھی طرح اس عمر کے بچے کیلئے محفوظ نہیں تھی،لیکن کیاکرتے،کرناتوتھانا۔۔۔۔بریک ٹائم( جسے اس وقت ہم آدھی چھٹی کہا کرتے تھے )میں درجنوں بچے ان سڑکوں کو عبورکرکے ان کھیتوں کو بھاگ رہے ہوتے تھے اور مجھ سمیت کئی بچوں کی ”چڑیا“ ان کے ہاتھوں میں ہوتی تھی۔
ہم چھٹی جماعت میں پہنچے تو ہماری جماعت کو کمرہ بھی مل گیا اور شہرکے مخیرحضرات کی مدد اور کچھ حکومتی مدد سے سکول کو چاردیواری نصیب ہوگئی ،اورچاردیواری کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹے سے کمرے میںآ ٹھ عدد بیت الخلاء (لیٹرین) بھی بنادی گئیں جس سے طلباء نے سوچاکہ کچھ سکھ ملے گا تاہم جب یہ لیٹرینیں چالوہوئیں تو یہ سکھ صرف ہماری سوچ تک رہ سکا،کیونکہ ہزارسے زیادہ طلباء کیلئے آٹھ لیٹرینیں کس طرح پوری آتیں۔
”آدھی چھٹی“ ہوتی تھی تو طلباء کی ایک بڑی تعداد ”چڑیا“ ہاتھ میں پکڑکر لیٹرینوں کی طرف دوڑلگاتی تھی اور جو پہلے پہنچ گیا وہ حاجب پوری کرلے گا ،باقی درجنوں کے حساب سے بچے لیٹرینوں کے باہر ایک ہاتھ میں” چڑیا“ اوردوسراہاتھ ناک پر رکھ کر کھڑے ہوتے تھے،کیونکہ اس کمرے میں شدید قسم کی بدبوہوتی تھی،”چڑیا“اور ناک پکڑے ہوئے کئی دفعہ آدھا آدھا گھنٹہ گزرجاتاتھا اورکئی دفعہ پریشربرداشت سے باہر ہونے پر پھرانہیں کھیتوں کی جانب بھاگ جاتے تھے، اس دوران ایک بچے کے ذہن اور جسم پر کیاتکلیف گزرتی ہے اس کا اندازہ صرف وہی کرسکتاہے جو اس سے گزراہو۔خیر اللہ اللہ کرکے ہم میٹرک کرکے اس سکول سے نکل گئے۔
بیس سال بعد چند روزقبل اسلام آبادسے اپنے قصبہ قلعہ دیدارسنگھ گیاتومادرعلمی کودیکھنے کا تجسس پھر سکول میں لے گیا۔۔یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ سکول اسی حالت میں تھا جیسابیس سال پہلے۔،بلکہ اس سے بھی بری حالت میں۔
آج اکیسویں صدی میں۔۔۔جب ہم فورجی انٹرنیٹ تو استعمال کررہے ہیں ،موٹرویزاورمیٹرو،بلکہ اورنچ ٹرینیں بھی بنارہے ہیں میرے سکول میں آج بھی کلاسز کھلے آسمان تلے لگی ہوئی تھیں،طلباء ٹونٹی سے منہ لگا کرپانی پی رہے تھے، ہمارے دورمیں نئے بننے والے چند کمرے انتہائی بوسیدہ حالت کو پہنچ چکے تھے۔۔۔ لیٹرینوں کی حالت ویسی ہی تھی جیسی اس وقت چھوڑ کر گئے تھے اور ان لیٹرینوں کے سامنے ”چڑیا“ہاتھ میں پکڑے بچے کی اذیت بھی مجھے اپنازمانہ طالبعلمی یادکروارہی تھی۔
نیاپاکستان ہویا پراناپاکستان۔۔۔سرکاری سکول کی حالت نہیں بدل سکی۔۔۔مجھے اچھی طرح یادہے ہر سال امتحانات کا نتیجہ نکلتاتھا تو ایک تقریب منعقدکی جاتی تھی جس میں علاقے کی کوئی متمول شخصیت بطورمہمان خصوصی شریک ہوتی تھی اور ہمارے ہیڈماسٹرصاحب(اللہ پاک انہیں غریق رحمت کرے)التجاکررہے ہوتے تھے کہ سکول میں کمرے نہیں،ٹاٹ نہیں،لیٹرینیں نہیں۔۔۔۔اوروہ شخصیت وعدے کرکے چلی جاتی تھی۔
میں بیس سال اس سکول گیا،سکول کا پراناطالبعلم ہونے کابتایاتو ہیڈماسٹرصاحب بڑے پیارسے ملے ، انہوں نے پوچھا بیٹاکیاکرتے ہو تو صحافی ہونے کا ذکرکیاتو بیس سال بعدبھی اس انتہائی پڑھی لکھی اورمدبرشخصیت نے سکول میں سہولیات کی کمی کا ذکرویسے ہی کیاجیسے پہلے ہیڈماسٹرصاحبان کرتے تھے۔
گزیٹیڈپوسٹ پر بیٹھی اس شخصیت سے بات چیت کے بعد پتہ چلاکہ سکول کے مسائل تو ویسے ہی ہیں۔۔۔۔بوجھل دل کے ساتھ بیٹے کو لے کرسکول سے واپس آرہاتھا تو ذہن میں اسلام آبادکے میٹروسٹیشن گھوم رہے تھے جومکمل اے سی لگے ہوئے ہیں،لیکن اس سکول میں آج بھی بچے کھلے آسمان تلے درختوں کی چھاوٴں میں پڑھنے پر مجبورہیں۔۔۔۔سکول کی خستہ حال عمارت دیکھ کر اسلام آبادکے پارلیمنٹ ہاوٴس اور وزیراعظم ہاوٴس کی عظمت ذہن کو کچوکے لگارہی تھی اورذہن کو چیخ چیخ کر بتارہی تھی کہ ہماری قوم کے ان بچوں کی قسمت میں بیس پچیس سال پہلے بھی اسی طرح” چڑیا“پکڑکر بھاگناتھا اور آج بھی۔
ہم ایف سولہ تو لے سکتے ہیں تعلیمی اداروں کی حالت ٹھیک نہیں کرسکتے،اسی قصبہ میں تھانے کی عمارت تو نئی بن چکی ہے لیکن سکول کی عمارت ویسی ہی ہے۔۔۔یہ صرف ایک سکول کی حالت ہے ،اوروہ بھی لاہورسے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیوپر واقع پنجاب کے قصبے کی۔۔۔ دوردرازکے دیہاتوں،سندھ کے گوٹھوں،بلوچستان ،کے پی کے کے مضافاتی علاقوں میں سکولوں کی حالت کیسی ہوگی آپ اندازہ لگاسکتے ہیں۔
ان بیس سالوں میں پرویزمشرف کی حکومت بھی آئی اور ن لیگ کی بھی۔۔،پیپلزپارٹی کی بھی اور تبدیلی سرکاروالوں کی بھی۔۔لیکن سکول میں تبدیلی نہیں آئی۔۔۔کاش کہ کوئی حکومت ایسی آئے جو بنیادی تعلیم کی سہولیات دینے کیلئے اقدامات کرے ،کاش کہ ہمارے حکمران سڑکیں اور اسلحہ بنانے کے ساتھ ساتھ عوام کی تعلیم پر بھی توجہ دیں۔۔۔لیکن ایساہوتانظرنہیں آرہا،کیونکہ گزشتہ بیس سالوں میں کسی ایم این اے ،ایم پی اے ،کسی ڈی سی،کسی جرنیل ،کسی جج،کسی وڈیرے،کسی سینیٹر کابچہ حصول تعلیم کیلئے یہاں نہیں آیااور مستقبل میں بھی آنے کاامکان نہیں ہے۔
تبدیلی کے دعویدارعمران خان کو اگراس ملک میں حقیقی تبدیلی لاناہے تو یہ قانون پاس کرناہوگا کہ ہر علاقے کے ایم این اے ایم پی اے،ڈی سی اے سی ،کے بچے اسی علاقے کے سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کریں گے،بلکہ الیکشن میں حصہ لینے کیلئے شرط ہوگی کہ امیدواروں کے بچے اپنے علاقے کے سرکاری سکولوں میں پڑھ رہے ہوں گے تو تب ہی یہ لوگ امیدواربن سکیں گے،شاید پھر حالات ٹھیک ہوجائیں۔۔۔وگرنہ ہم جیسے بچے ساری زندگی ”چڑیا“ہاتھ میں پکڑ کرکھیتوں کی جانب بھاگ رہے ہوں گے اور دنیابہت آگے نکل جائے گی۔