افشاں نوید
میرے مولا! تیری بندی وہ دنیا چھوڑ آئی ہے۔۔۔
وہ شازیہ خشک تھیں۔۔۔ شازیہ خشک گلوکاری سے باپردہ ہونے تک کا سفر
دو روز قبل معمول کے ہفتہ وار درس کی محفل تھی ۔
ایک خاتون نے دو تین بار ہاتھ آٹھایا کہ مجھے بھی کچھ بات کرنا ہے۔
میں نے کہا پروگرام کے آخری حصے میں آپ کو موقع دیا جائے گا۔
وہ سامنے شرکاء کے ہمراہ فرشی نشست پر تھیں۔
درس کے بعد میں نے سمٹتے ہوئے اپنے برابر صوفے پر ان کے لیےجگہ بنائی وہ جھجک رہی تھیں۔اصرار پر آگئیں۔
درمیانہ عمر کی سرخ وسفید باحجاب خاتون نے تین نصیحتیں کیں۔۔نماز کی پابندی۔۔
غیبت نہ کریں۔۔اور
استغفار کو لازم پکڑ لیں۔
پھر انھوں نے استغفار کی برکت بتاتے ہوئے اپنا تعارف کرایا کہ۔۔
"میرا نام شازیہ خشک ہے۔۔
میں ہر کنسرٹ میں اسٹیج پر جانے سے پہلے استغفار ضرور پڑھتی تھی۔
دل تو کہتا تھا کہ گانا بجانا گناہ ہے مگر مجبوری تھی کہ یہ میرا پیشہ بھی تھا۔
جب جنید جمشید تبلیغ سے وابستہ ہوئے تو دل مضطرب رہتا تھا کہ مسلمان ہونے کا کوئی تو حق ادا کر جاؤں۔۔
ایک دن وہ تذکیر کا پروگرام کرکے نکل رہے تھے میں نے راستے میں روک کر سلام کیا۔
ان سے کہا "مجھے بھی دین کی طرف آنا ہے۔”
بولے۔”میری بہن ! وہ وقت آئے گا ,ابھی کچھ وقت ہے۔”
بس میرا اضطرار بڑھتا گیا کہ وہ وقت کب آئے گا؟؟
پھر میں نے حتمی فیصلہ کرلیا کہ اس گناہ کی زندگی کی طرف اب پلٹ کر نہیں دیکھنا۔”
خواتین دم بخود انکی آب بیتی سن رہی تھیں۔
ان کے جذبات چہرے سے عیاں تھے۔
بولیں” ایمان اپنے ساتھ اتنی بڑی آزمائش لاتا ہے مجھے اس راستے پر آکر اندازہ ہوا۔۔سورۂ عصر میں اسی لیے حق کے ساتھ صبر کا ذکر ہے۔۔
میں وہ دنیا چھوڑ آئی۔۔اپنا سب کچھ چھوڑ کر اس راستے پر نکل کھڑی ہوئی ہوں۔
سب کشتیاں جلا چکی۔
آپ سب میرے لیے استقامت کی دعا کریں۔۔
کثرت سے پڑھتی ہوں۔۔ربنا لاتزغ قلوبنا بعد اذ ہدیتنا۔۔۔
میں ہر ہفتہ کئی لاکھ روپے کماتی تھی۔
میرے کنسرٹس بہت کامیاب ہوتے تھے۔
میں نے بے نظیر کے ذاتی طیارے میں ان کے ساتھ ازبکستان کا سفر کیا ہے۔۔
دنیا کے پچاس ملکوں میں میں نے پرفارم کیا مگر ۔۔۔۔
مجھے سکون اس راستے پر آکر ملا ہے۔۔میں نے جاہ و حشمت سب چیزوں کو ٹھوکر مار دی ہے۔رشتوں ناطوں سمیت بہت کچھ چھوڑنا پڑا ہے۔
شائد دنیا والوں کی نظر میں میں نے خسارے کا سودا کیا ہے مگر مجھے جو آسودگی نصیب ہوئی ہے اس پر شوبز کی شازیہ خشک جیسی پچاس گلوکارائیں قربان۔۔
اپنی باقی زندگی سے سابقہ زندگی کے گناہوں کی تلافی کی کوشش کرونگی۔۔”
شرکاء مجلس دل کی سماعتوں سے انھیں سن رہے تھے اور میرے تصور میں وہ شازیہ خشک تھیں جو محفل لوٹ لیا کرتی تھیں۔
انکے اسٹیج پر آتے ہی مجمع چارج ہوجاتا تھا۔
وہ لوک فنکارہ کی حیثیت سے دلوں پر راج کرتی تھیں۔انکی موجوگی کامیابی کی ضمانت ہوتی تھی۔۔
قلب کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ الٹتا پلٹتا رہتا ہے۔۔
خواتین انکو گلے لگا رہی تھیں۔مبارکباد دے رہی تھیں۔
میں نے کہا آپ کی آپ بیتی میں لکھ سکتی ہوں؟؟
بولیں۔ضرور، مسلمان بہنیں بہت خوش ہونگی۔۔
جب انھوں نے فرمائش پر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور حمد پڑھنا شروع کی کہ
میرا دل بدل دے۔۔مولا دل بدل دے
تو خواتین کے لیے جذبات پر قابو پانا مشکل ہوگیا۔۔
کمرہ سسکیوں سے گونجنے لگا کیونکہ آج انھوں نے ایک بدلا ہوا دل اپنے درمیان جو دیکھا تھا۔۔
(سینئر صحافی نواز رضا کی ٹائم لائن سے کاپی کیا گیا)
Comments are closed.