ریاست کے اندر ریاست ہے ، جبری گمشدگیوں کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں

اسلام آباد:ریاست کے اندر ریاست ہے ، جبری گمشدگیوں کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں ، جبری گمشدگیوں کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں ،چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ ریمارکس
مدثر نارو لاپتا کیس میں ریمارکس دیے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں مدثر نارو اور دیگر لاپتا افراد کی عدم بازیابی کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی جس سلسلے میں ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کا اس دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل سے مکالمہ ہوا، انھوں استفسار کیا کہ اس عدالت نے اپنے گزشتہ آرڈرمیں کیا لکھا تھا وہ پڑھ کر بتائیں، اس آرڈرمیں لکھا تھا کہ مسنگ پرسنزکوبازیاب کرکے پیش کیا جائے،وہ کہاں ہیں؟

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کے سوال پر کہا کہ لاپتا افراد کے معاملے پر وفاقی حکومت نے کمیٹی تشکیل دی ہے اور تحقیقاتی ایجنسیزبھی اپنی کوشش کررہی ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس عدالت کوکمیٹیوں میں نہ پھنسائیں، یہ بتائیں عملدرآمد ہوا ہے یا نہیں؟ وفاقی حکومت کا ایکشن کدھرہے؟ اب بھی روزانہ لوگ اٹھائے جارہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ بھی پوچھا کہ وفاقی حکومت کوپرویزمشرف اوراس کے بعد کے تمام وزرائے اعظم کونوٹسزجاری کرنے کاحکم دیا گیا تھا، وہ نوٹسز اور بیان حلفی کدھرہیں؟

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ اہم ترین معاملہ ہے اور اس میں ریاست کا یہ رویہ ہے، کیا وفاقی حکومت کی بنائی گئی کمیٹی کے اجلاس ہوئے ہیں؟ عدالت نے حکم دیا تھا کہ حکم پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو موجودہ اورسابقہ وزرائے داخلہ پیش ہوں گے۔

پھر انھوں ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وزرائے داخلہ کدھرہیں؟کیا یہ عدالت کے حکم پرعملدرآمد ہو رہا ہے؟ کیا یہ اچھا لگے گا کہ یہ عدالت چیف ایگزیکٹو کو سمن کرے؟

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ تمام حکومتیں آئین اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کررہی ہیں، یہ معاملہ وفاقی حکومت اورتمام سیاسی قیادت کیلئے ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے تھا۔

اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئندہ سماعت پر عدالت کو آگاہ کریں گے کہ مسنگ پرسنزکی بازیابی کیلئے کیا کوششیں کی جارہی ہیں۔

آئین وزیراعظم کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے ، چیف جسٹس کے ریمارکس

ڈپٹی اٹارنی جنرل کے موقف پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ مسنگ پرسنز کی بازیابی کیلئے کوئی کوششیں نہیں کی جا رہیں، عدالت نے حکم دیا تھا کہ مسنگ پرسنزکی مشکلات عوام تک پہنچانیکیلئے اقدامات کیے جائیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ نے ایک کمیٹی بنائی ہے،گو کہ ناہونے کے برابرہے لیکن کوئی اقدام تواٹھایا گیا، ان جبری گمشدگیوں کا ذمہ دارکس کو ٹھہرائیں؟ یا توبتا دیں کہ یہاں ریاست کے اندر ریاست ہے۔

ریمارکس دیئے کہ پولیس،آئی بی اور آرمڈ فورسزکی ایجنسیز پر بھی الزام لگایا جاتا ہے، جتنے بھی کیسز ہیں ان میں کسی ایک کا بھی بتادیں کہ اسے کس نے اٹھایا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ وزیردفاع کس کے ماتحت ہے؟ یا تووزیراعظم کہہ دے کہ وہ بے بس ہیں، اگر وزیراعظم بے بس نہیں ہے تو آئین انہیں ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔

Comments are closed.