ہم خاندان سے باہر کیوں نہیں نکلتے؟
محمود شام
سب کو سلطانیٔ جمہور کا دعویٰ ہے مگر
اختیارات بہ اندازِ شہی مانگتے ہیں
فروری مارچ اپریل ہیں تو ڈائمنڈ جوبلی سال کے مہینے۔ مگر 75ویں سال ہمارے منتخب نمائندوں نے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں جو ہنگامے پیش کیے ایک اک قدم بزبانِ حال کہہ رہا تھا کہ ہم نے پاکستان جیسا بڑا تاریخی اور جغرافیائی جو چیلنج قبول کیا تھا، ہم اس سے نمٹنے کے اہل نہیں ہیں۔دھینگا مشتی۔ دھول دھپا۔ ہاتھا پائی۔ گالم گلوچ کیا کچھ نہیں ہوا۔ اور کسی نے اس پر ندامت محسوس نہیں کی۔
آئین، قواعد و ضوابط، اخلاقیات، عدل سب کا نام لیتے ہیں۔ لیکن سب کی دھجیاں اڑانے میں بھی ہمارا جواب نہیں۔جمہوریت کے ہم عاشق ہیں۔ لیکن جمہوریت میں جس انا، رشتے داری، خاندان، اقربا پروری کی قربانی دینا ہوتی ہے، وہ ہم سے نہیں ہوتی کیونکہ ہم بادشاہوں کے وارث ہیں۔ اپنے بچوں کو شہزادے شہزادیاں کہہ کر خوش ہوتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ(ن) نے پہلے تو اس حد تک اپنے خاندانی ہونے کا ثبوت دیا تھا کہ ایک بھائی وزیر اعظم دوسرا سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ۔ یہ عہدے سازی کسی کی اہلیت کی وجہ سے ہوتی ہے یا عدم تحفظ کے احساس سے کہ خاندان کے باہر کوئی کتنا ہی مخلص ہو اس پر اعتماد نہیں ہوتا۔ اب ہم اس سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ مغلیہ دَور پوری طرح واپس آرہا ہے۔
وزیراعظم والد محترم۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ خلف الرشید یعنی پارٹی کے برسوں سے جدو جہد میں ساتھیوں میں سے کوئی بھی اس منصب کا اہل نہیں، تاریخ شرمسار ہورہی ہوتی ہے۔ اپنے بھائی۔ بیٹے۔ بیٹیاں ہر چند کتنے ہی قابل، لائق فائق کیوں نہ ہوں۔ جمہوریت کی روح یہی ہوتی ہے کہ ایثار سے کام لینا پڑتا ہے۔ کیا احسن اقبال۔ خواجہ سعد رفیق۔ خواجہ آصف۔ وزارتِ اعلیٰ کی ذمہ داری بطریق احسن نہیں نبھا سکتے تھے؟ عثمان بزدار سے تو بہتر ہی رہتے۔
افسوس تو یہ ہے کہ یہ صرف ایک خاندان تک محدود نہیں ہے۔ سارے سیاسی خاندانوں کا یہی برتائو ہے۔ اس لیے ہماری قومی سیاسی جماعتیں حقیقی معنوں میں سیاسی جماعتیں نہیں بن پاتیں۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت کا سب سے اہم ستون ہوتی ہیں۔ جب وہ کمزور ہوتی ہیں ان کے اندر جمہوریت نہیں ہوتی تو ملک میں بھی جمہوریت اصل شکل میں نمو نہیں پاتی۔
میرے مشاہدے کے مطابق ہمارے سیاسی بحرانوں کا اصل سبب غیر منظّم سیاسی پارٹیاں ہی ہیں۔ گزشتہ چند ماہ میں ہم نے جس انتشار، طوائف الملوکی کے مظاہرے دیکھے ہیں۔ وہ منظّم سیاسی پارٹیوں کے نہ ہونے کا ثبوت ہی ہیں۔ ماضی میں اتنا ہنگامہ ہوتا تھا تو بیرکیں آپے سے باہر ہوجاتی تھیں۔
ریڈیو ٹیلی وژن سے ’میرے عزیز ہم وطنو ‘ کی رعب دار آواز سنائی دیتی تھی۔ اب یہ آواز اگر نہیں آتی تو یہ نہیں ہے کہ ہمارا جمہوری ڈھانچہ بہت آئینی اور مضبوط ہوگیا ہے بلکہ عالمی ڈھانچہ اتنا سخت ہوگیا ہے کہ وہاں سے اقتصادی عسکری پابندیاں لگ جاتی ہیں۔ ہم خود کفیل ملک نہیں ہیں۔
باہر کی امداد اور قرضوں پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس لیے باہر کی پابندیوں سے خائف رہتے ہیں۔ 1971 میں ملک دو لخت ہونے کے بعد پہلی ہی تقریر میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے ٹیلنٹڈ کزن کا ذکر کرنا پڑا۔
دیگر رشتوں کی وہ قربانی دے رہے تھے۔ مگر اپنے خاندانی دائرے میں انہیں اس رشتے کو سرکاری عہدہ دینا پڑ رہا تھا۔ وہ اپنی مضبوط پوزیشن کے باوجود یہ ایثار نہ کرسکے۔ اس کے نتیجے میں ان کا دَور اندرونی تنازعات میں الجھا رہا۔ لسانی فسادات بھی برپا ہوئے۔
یہ لطیفہ ہے یا واقعہ۔ جناب ایوب خان اور ان کے بھائی سردار بہادر خان کے درمیان کشمکش بڑھ رہی تھی۔ ایک صدر پاکستان دوسرے اپوزیشن لیڈر۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی عظیم والدہ نے دونوں کو بلایا۔ لڑنے سے منع کیا۔ ایوب خان کو سمجھایا کہ جہلم تک تم سنبھالو۔ باقی بھائی کو دے دو۔
مشکل یہ ہے کہ ہم جمہوریت کے دلدادہ ہیں۔ مگر ہمیں تاریخ مغلیہ خاندان۔ عباسی خاندان کی پڑھائی جاتی ہے۔
ڈرامے عثمانی خاندان کے دکھائے جاتے ہیں۔ فلم ہم ’مغل اعظم‘ پسند کرتے ہیں۔ جس پارلیمانی جمہوریت کو ہم اپنار ہے ہیں۔ اس کی تاریخ نہیں پڑھائی جاتی۔ یورپ میں پارلیمانی جمہوریت کیسے راسخ ہوئی، یہ فلمیں نہیں پیش کی جاتیں۔
بھٹو خاندان میں یہ سلسلہ اس لیے قابل قبول ہوا کہ جنرل ضیا کے انتہائی سفاک مارشل لا میں ان کی بیگم اور بیٹی نے مزاحمت کی زندہ مثالیں پیش کیں۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ قریبی ساتھیوں میں سے کئی جنرلوں کے رابطوں میںپائے گئے۔ یہاں بھی اگر ان کے عہدیدار مخلص ہوتے تو موروثیت نہ فروغ پاتی۔ مگر ان خاندانوں میں بھی یہ سوچ کبھی کبھی ابھر آتی ہے۔ جب بیٹی وزیر اعظم تھیں۔ تو والدہ سینئر وزیر تھیں۔
بیگم نصرت بھٹو نے یہ خواہش بھی کی تھی کہ بے نظیر بھٹو اپنے بھائی مرتضیٰ بھٹو کو وزیر اعلیٰ سندھ بنادیں۔ تو یہ خاندانی سیاسی تنازعات انجام کو پہنچیں۔جب عمران خان صاحب اور علامہ طاہر القادری کے دھرنے چل رہے تھے اور نواز حکومت کے وزرا ان سے مل رہے تھے تو طاہر القادری صاحب نے خواجہ سعد رفیق کے حوالے سے کہا تھا کہ ان سے ملاقات بہت اچھی رہی مگر وزیر اعظم نواز شریف کو اپنے خاندان پر اعتماد ہے۔ اس لیے سمدھی اسحاق ڈار صاحب ملیں گے وہ معاملہ طے کریں گے۔
جمہوریت کو استحکام اس وقت تک مشکل سے ہی ملے گا جب تک ہماری قومی سیاسی جماعتوں سے موروثیت ختم نہیں ہوگی۔ ہم سیاسی عمل کو ایک سیاسی عمل نہیں سمجھیں گے۔
عدم تحفظ کے احساس میں بلا وجہ مبتلا نہیںرہیں گے جب تک ہم سب مل کر ایک سسٹم کو جنم نہیں دیں گے۔ پھر سب اس سسٹم کی پابندی نہیں کریں گے۔ سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ قومی سیاسی جماعتوں کی تنظیم جمہوری بنیادوں پر ہو۔ سیاسی پارٹی کو حکومت پر بالادستی ہو۔ جس طرح ہم آئینی معاملات پر سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہیں اس طرح ہم اپنی سیاسی پارٹی کی تنظیم سے رابطہ کریں۔
وہاں ایسے با اصول تجربہ کار عہدیدار ہوں جو کسی رنگ نسل، زبان اور خاندانی رشتوں سے بالاتر ہوکر فیصلے کریں۔ سرکاری عہدیدار پارٹی کی تنظیم کو جوابدہ ہوں۔ سیاست کو عبادت، خدمت خلق خیال کریں۔ اسے خاندانی ترقی کا نہیں، ملک کی ترقی کا ذریعہ سمجھیں۔
(بشکریہ روزنامہ جنگ)
Comments are closed.