عمران خان حکومت خاتمہ کے عوامل
ملیحہ لودھی
حکومت ختم ہونے کے بعد عمران خان کے ان دعووں سے متعلق سوالات اٹھتے ہیں جن میں انہوں نے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کی بات کی تھی۔ اگرچہ پارلیمانی عمل کو الٹ دیا گیا اور ایک آئینی بحران شروع ہوگیا ہے لیکن پھر بھی اس طرح عمران خان کے اقتدار کا خاتمہ ہوچکا ہے۔
پاکستان کی حالیہ تاریخ میں شاید چند ہی ایسی حکومتیں ہوں گی جنہیں اپنے اقتدار کے آغاز میں اس قدر حمایت اور مدد حاصل ہو جتنی عمران خان کو حاصل تھی۔ انہیں فوج کی جانب سے لامحدود مدد حاصل تھی، عوامی حمایت بھی ان کے ساتھ تھی، انہیں پنجاب کا کنٹرول بھی حاصل تھا، ان کی اپوزیشن منقسم اور مایوسی کا شکار تھی اور ان کے پاس تبدیلی کا نعرہ بھی تھا۔
لیکن شاید ہی کسی حکومت نے اپنی خراب کارکردگی، وعدہ خلافی، دشمنی کی سیاست اور اپنے ٹرمپئین طرزِ عمل سے اتنی جلدی اپنے حامیوں اور دیگر لوگوں کو مایوس اور ناامید کیا ہو۔عمران خان کی حکومت کو درپیش اعتماد کے بحران نے ان کی حکومت کی مدت کو مختصر کردیا اور اس کے پیچھے کئی عوامل ہیں۔
پہلی وجہ تو اکثریت نہ رکھنے والی حکومت کی جانب سے اس بات کا دکھاوا تھا کہ اس کے پاس فیصلہ کن مینڈیٹ ہے اور وہ دیگر سیاسی کرداروں کے مفادات اور خیالات کو کچل سکتے ہیں۔ مخلوط حکومت چلانے کے لیے عاجزی، اتفاق پیدا کرنے کی کوششوں، سمجھوتے اور اتحادیوں کی بات سننے کی کوششیں ضروری ہوتی ہے۔ اس کے برعکس عمران خان نے اتفاق رائے کے بغیر حکومت کرنے کی کوشش کی، انہوں نے پاکستان کے وفاق اور پارلیمانی نظام کو نظر انداز کردیا جسے چلانے کے لیے سمجھوتا ضروری ہوتا ہے۔
پھر ذاتی اقتدار نے حالات کو مزید خراب کردیا، اس قتدار میں طاقت کا مرکز ایک شخص تھا جو اہم فیصلے بھی سوچ بچار کے بعد دی گئی تجاویز کے بجائے اپنی مرضی سے لیتا تھا۔ذاتی اقتدار کا مطلب یہ ہے کہ پالیسی تجاویز کے ایک ادارہ جاتی نظام کے بجائے کسی رہنما کی جبلت اور انا پر بھروسہ کیا جائے۔
اس وجہ سے بار بار پالیسی یوٹرن لیے گئے جو شرمندگی کا باعث بنے اور دنیا کے سامنے ایک ایسی حکومت کی شبیہ گئی جس کے پاس کوئی سمت نہیں تھی۔ اس کی وجہ کسی حد تک عمران خان کی ناتجربہ کاری اور ریاستی امور سے ان کی ناواقفیت کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاہم اپنے اقتدار کے چوتھے سال میں بھی ان کا کسی سے مشورہ نہ کرنے والا اور متکبرانہ انداز برقرار رہا جس کی وجہ سے وہ پارٹی کے اندر مایوسی اور عوام میں بڑھتی ہوئی ناامیدی سے بے خبر رہے۔
تیسری وجہ پارٹی میں موجود خدشات کے باوجود پنجاب کو چلانے کے لیے کمزور قیادت کا انتخاب تھا۔ یہی ان کی حکومت کی سب سے بڑی کمزوری بنی۔ پنجاب حکومت کی ناقص کارکردگی جماعت کے اندر بڑھتے ہوئے اختلافات کا سبب اور صوبے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مقبولیت میں کمی کا باعث بھی بنی۔
اسی وجہ سے منحرف ارکان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا جو اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک میں بہت اہم تھے۔ مرکز میں کمزور حکومت کی وجہ سے حکمران جماعت کو متعدد ضمنی انتخابات میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن بلدیاتی انتخابات اور ضمنی انتخابات میں شکست کی وجوہات پر غور کرنے کے بجائے وزیراعظم اخلاقیات کا درس دیتے رہے۔
قیادت کی جانب سے جماعت کو بدنظمی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار چھوڑ دیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے اب تک پولیٹیکل منیجمنٹ نہیں سیکھی تھی کیونکہ اس کام کے لیے وہ اسٹیبلشمنٹ پر منحصر تھے کہ وہی کسی بھی قانون سازی کے دوران اتحادیوں کو برقرار رکھنے کے لیے کاوشیں کریں۔ لیکن اس کی بھی ایک حد ہے۔
عمران خان کی جانب سے اتحادیوں سے ملاقات کا وقت نہ نکالنے اور ان کی ضروریات کا جواب نہ دینے سے اتحادی ان سے دُور ہوگئے جس کی عمران خان کو قیمت ادا کرنی پڑی۔ ان اتحادیوں میں سے کئی نے عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے میں اپوزیشن کی حمایت بھی کردی۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ عمران خان کا سارا وقت اپوزیشن کو بُرا بھلا کہنے اور اس کی قیادت پر حملے کرتے ہوئے ہی گزر گیا۔ اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف نیب مقدمات سے یہ امید تھی کہ اس سے ان کی ساکھ اور سیاسی وزن کو نقصان پہنچے گا۔ تاہم یکطرفہ احتساب اور عدالت کی جانب سے سزائیں نہ ہونے کی وجہ سے اس سارے عمل پر سے اعتماد اٹھ گیا۔
عمران خان اور ان کے وزرا اپوزیشن کو جائز سرگرمی کے طور پر تسلیم کرنے سے قاصر رہے اور اپوزیشن رہنماؤں کو غدار اور غیر محب وطن قرار دیتے رہے۔ اس کا نتیجہ دیگر پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ کام کرنے میں ناکامی کی صورت میں نکلا۔ یوں مختلف مفادات رکھنے والی اپوزیشن جماعتیں عمران خان کو آئینی طریقے سے بے دخل کرنے کے لیے متحد ہوگئیں۔ بڑی اپوزیشن جماعتوں کو دیوار سے لگانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان پارلیمان میں گنتی بھر اتحادیوں کے ساتھ رہ گئے۔
اپنے مخالفین کو کمزور کرنے کے لیے نام نہاد احتساب پر غیر معمولی توجہ کی وجہ سے حکومت خود اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے پر توجہ نہیں دے سکی۔ ان میں سب سے اہم چیز بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال تھی جو عوام میں عدم اطمینان کا باعث بن رہی تھی۔ یعنی حکومت نے اخراجات، بے روزگاری، بلوں میں اضافے اور ضروری اشیا اور خدمات کی بلا تعطل فراہمی جیسی چیزوں پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جبکہ یہی چیزیں عوام کے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔
درحقیقت عمران خان کے معاشی اقدامات بھی کئی یوٹرن اور وزرا و مشیران کی تبدیلی سے بھرے پڑے ہیں۔ یہی کچھ دیگر شعبوں میں بھی دیکھا گیا لیکن اس کے سب سے زیادہ اثرات معیشت پر پڑے۔ کورونا سے متعلق اقدامات سے کسی حد تک ہونے والی بحالی کے باوجود حکومت نے ایک اسٹریٹجک غلطی کی۔ وہ غلطی آئی ایم ایف پروگرام کو دوبارہ بحال کرنے میں تاخیر کرنا تھی۔ اس کے نتیجے میں زرِمبادلہ کے ذخائر کم ہوگئے، روپے کی قدر متاثر ہوئی اور مارکیٹ کا اعتماد بھی ختم ہوگیا۔
مہنگائی ایک سیاسی مسئلہ بن گئی ہے جس میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ اس اضافے کی وجہ جہاں رسد اور مالیاتی عوامل تھے وہیں عمران خان کی جانب سے بلا روک ٹوک سبسڈی اسکیمیں دینا بھی اس کی وجہ بنا۔ ساتھ ہی اندرونی اور بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوا اور حکومتی قرضے جی ڈی پی کے 90 فیصد سے بھی زائد ہوگئے۔
پی ٹی آئی حکومت سے عوام کی بڑھتی ہوئی بے چینی کی سب سے بڑی وجہ آسمان چھوتی مہنگائی تھی۔ معاشی مشکلات کے نتیجے میں اپوزیشن کو اپنی تحریک چلانے اور عدم اعتماد کے لیے عوام میں موجود عدم اطمینان کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا موقع ملا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لیے یہ پی ٹی آئی کے ان منحرف اراکین کو اپنی جانب لانے کا ایک موقع تھا جو یہ سمجھتے تھے کہ آنے والے انتخابات میں پی ٹی آئی ان کے لیے ایک رکاوٹ ثابت ہوگی۔ اس وجہ سے وہ کسی ایسی جماعت سے ہاتھ ملانے کے بارے میں سوچ رہے تھے جو ان کے نزدیک پنجاب میں مقبولیت رکھتی ہے۔ اس ماحول میں پی ٹی آئی قیادت نے اپنی حکومت کی سمت اور اپنی شبیہ درست کرنے کے کئی مواقع ضائع کیے۔
اس حوالے سے کی جانے والی کوئی بھی بات سول ملٹری تعلقات کے بغیر نامکمل ہے۔ گزشتہ سال ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی اور حکومت اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے اختلافات سامنے آئے۔ لیکن اس حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات خراب ہوگئے ہوں یا پھر اسٹیبلشمنٹ نے اپنی حمایت واپس لے لی ہو۔
تاہم فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عدم اعتماد کے عمل میں غیر جانبداری کا رویہ اپنایا اور ماضی سے ہٹ کر حکومت کو مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ تو کیا یہی وجہ تھی کہ اپوزیشن پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد کے لیے درکار نمبر پورے کرنے میں کامیاب رہی؟
اس پر سوال کیا جاسکتا ہے۔ جو بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان حکومت کے خاتمے کی وجہ اس کی اپنی ہٹ دھرمی، غلط طرزِ حکمرانی، اپوزیشن کو برداشت نہ کرنا، محاذ آرائی کی سیاست اور پالیسی کے حوالے سے کی جانے والی غلطیاں تھیں۔(بشکریہ ڈان)
Comments are closed.