تبدیلی ۔۔طعنے سے گالی تک

عابد رشید

کچھ دنوں سے ہماری سیاست کے تیور کچھ زیادہ ہی خطرناک ہو گئے ہیں۔ جمہوریت جسے قومی سلامتی اور یکجہتی کیلئے ”نسخہ کیمیا“ سمجھا جاتا ہے لیکن کیا کیجئے
کہ” کی تھی ہم نے جو تدبیر آدھی رہ گئی“۔

حکمران جماعت پی ٹی آئی کو نئے وپُرانے سب سیاستدان گھیر گھار کر بند گلی میں لے جانے کے درپے ہیں ۔ کچھ سیاستدانوں کے دلوں میں لیلائے اقتدار کے وصل سے محرومی کے داغ بہار دے رہے ہیں تو ” کچھ“ کے دلوں میں یہ سودا نیا نیا سمایا ہے۔

پی ٹی آئی کی نئی شکل جو2017 ءکے بعد سامنے آئی ہے وہ ایک لحاظ سے ”بھان متی کا کنبہ“ ہے جس میں چند کے سواکوئی بھی ” اپنا “ نہیں۔” کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا ، بھان متی نے کنبہ جوڑا“۔

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وزیراعظم گھات لگا کر وار کرنا چھوڑیں اور ہم سے سیدھی بات کریں ۔دوسری طرف ایک حکومتی گروپ وفاق میں نالاں ہے جبکہ دو پنجاب میں ڈیڑھ اینٹ کی الگ الگ مسجدیں بنا کر بیٹھے ہیں وہ بزدار سے ناراض ہیں اور یہاں یہ حال کہ” کس کو دماغ منت گفت و شنید تھا“

قومی اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن نے وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک داخل کر دی ہے ان حالات میں ایک طرف تو اپوزیشن رہنما ﺅں کی زبان چوکڑیاں بھر رہی ہے تو دوسری طر ف وزیراعظم سمیت حکومتی اکابرین بھی دھڑا دھڑ لفظوں کے گولے داغ رہے ہیں۔

درمیان میں قوم مہنگائی کی چکی کے پاٹوں میں بری طرح پس رہی ہے مگر کسی کو اس طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں ۔چار سال گزر گئے، ہردن کا سورج عوام پر مہنگائی کا نیا تازیانہ برسا کرغروب ہو جاتا ہے.

لوگ پریشان ہیں،جنہوں نے تبدیلی کا خواب دیکھا تھا اور جنہوں نے اس خواب کو مہمیز دی تھی ،دونوں پریشان بھی ہیں اور پشیمان بھی۔۔۔! کریں تو کیا کریں؟

وزیراعظم کہتے ہیں کہ چونکہ ان کی حکومت نے ایک آزاد خارجہ پالیسی اپنائی ہے اس لئے مغربی ملکوں نے متحدہ اپوزیشن کو بیرن ملک سے فنڈنگ کی ہے کہ وہ ان کی حکومت کوختم کر دیں اور مغرب نواز حکومت بنا لیں ۔۔

۔” آپ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہونگے“ لیکن عوام بجلی تیل اور گیس کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مہنگائی کے تواتر کے ساتھ اوپر چڑھتے ہوئے گراف کا مقابلہ کیسے کریں ؟

آیئے دیکھتے ہیں کہ بیرونی فنڈنگ کا دعوی کتنا حقیقی ہے؟سیاست میں تبدیلی کا نعرہ اُمید کا استعارہ تھا۔ لیکن اب طعنہ اور گالی بن چکا ہے ، تبدیلی کی دعویدار پاکستان تحریک انصاف خود تبدیل ہو چکی ہے۔

. 2018 میں جن لوگوں نے عمران خان کو ووٹ دیا تھا وہ اب کہیں اور اڑان بھرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کی کارکردگی سے تحریک انصاف کے متعدد ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی مایوسی بے چینی اور غصے میں تبدیل ہو رہی ہے۔

پی ٹی آئی میں یہ تبدیلی بہرحال نظر آ رہی ہے کہ سن 2018 میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کرنے والوں کی اکثریت آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر حصہ لینے کے لئے تیار نہیں۔

مسلم لیگ نون کے ٹکٹ کا حصول ان دوستوں کی مجبوری ہے، جنہوں نے اگلا الیکشن پنجاب سے لڑنا ہے۔ دوسری طرف سندھ یا خیبر پختونخوا سے الیکشن لڑنے کے خواہش مند پیپلز پارٹی، جے یو آئی ف اور اے این پی کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں۔

اسلام آباد میں صورتحال بڑی دلچسپ ہے۔ تحریک انصاف کے چند ارکان اسمبلی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ خفیہ رابطوں میں مصروف ہیں، تو کچھ ایسے بھی ہیں، جن کے رابطے اور گفتگو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ان میں نور عالم خان بھی شامل ہیں۔

وہ پہلے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی پہنچے وہاں سے گولی کی طرح نکلے اور پشاور سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ہوگئے، آج کل وہ اپوزیشن جماعتوں کی آنکھوں کا” نور “بنے ہوئے ہیں۔

اب یہ تو نور عالم ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ وہ اگلا الیکشن کس پارٹی کے ٹکٹ پر لڑیں گے؟ فی الحال تو وہ مولانا عطا الرحمان کے بہت قریب ہیں، ممکن ہے اس بار ان کی گاڑی کا پلیٹ فارم جے یو آئی ہو۔

میانوالی سے تحریک انصاف کے ایم این اے امجد خان نیازی کا مسلم لیگ نون کے لندن گروپ سے ”بہت یارانہ لگتا ہے“۔یہ گروپ ڈاکٹر مختار، چوہدری حامد حمید، علی گوہر بلوچ، معین وٹو اور دیگر مسلم لیگیوں پر مشتمل ہے.

یہ گروپ دن رات نواز شریف کو پاکستان واپس لانے کے منصوبے بناتا ہے مگر یہ منصوبے پارٹی کے اندر ہی قہقہوں میں ہی اڑا دیا جاتا ہے۔ لندن گروپ اور” مفاہمت پرستوں“ کی قربتیں عمران خان کےخلاف تحریک عدم اعتماد کی صورت سامنے آئی ہیں۔

اگرچہ اپوزیشن جماعتوں میں بہت سے اختلافات ہیں لیکن اتفاق صرف ایک بات پر ہے اگر عمران خان کی تبدیلی سرکار کو نہ ہٹایا گیا تو یہ تبدیلی پاکستان کی مکمل معاشی تباہی کی وجہ بن جائے گی۔

Comments are closed.