پیپلز پارٹی کے عوامی لانگ مارچ کے 38مطالبات

فوٹو: فائل

کراچی( زمینی حقائق ڈاٹ کام) پاکستان پیپلز پارٹی نے لانگ مارچ شروع کرنے سے پہلے مزار قائد پر حکومت کیلئے38مطالبات پیش کردیئے ہیں، پیپلز پارٹی کے عوامی لانگ مارچ کے 38مطالبات میں آزادانہ انتخابات کا مطالبہ شامل ہے۔

پیپلز پارٹی کے مطالبات میں 1973کے آئین کی پاسداری،اداروں کو آئینی حدود میں رہنے،آزاد الیکشن کمیشن،عدلیہ کو قابل احتساب بنانا، مزدور یونین کی بحالی، سائبر کرائمز کی جابرانہ دفعات کا خاتمہ ، آزادی اظہار رائے سمیت درج ذیل نکات شامل ہیں۔

1: حکومت کی ہر سطح پر ایماندارانہ اور آزادانہ انتخابات کروائے۔

2: 1973ء کے آئین کے مطابق حکومت کا نظم و نسق چلائے۔

3: 1973ء کے آئین میں دیے گئے مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے جدا جدا اختیارات کے اصولوں کی پاسداری کی جائے۔

4: تمام اداروں کی اپنی اپنی آ ئینی حدود میں رہتے ہوئے کارکردگی اور اختیارات ہوں۔

5: پارلیمنٹ اور کمیٹی سسٹم کا استحکام اور پائیداری کی جائے۔

6: اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری کے سلسلے میں پارلیمانی کمیٹی کے 1973ء کے آئین میں دیے گئے کردار کا ازسرِ نو تعین کیا جائے۔

7: آزاد الیکشن کمیشن آف پاکستان قائم کیا جائے۔

8: قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے۔

9: ایک آزاد اور قابلِ احتساب عدلیہ کو ممکن بنایا جائے۔

10: ملک بھر کے تمام مزدوروں کو سندھ کی طرز پر یونین سازی کا حق دیا جائے۔

11: طلباء کے لیے یونین سازی کا حق اور طالب علموں کی فلاح و بہبود کے امور میں ان کا فیصلہ ساز کردار تسلیم کیا جائے۔

12: آزادی اظہار کے حق کو یقینی بنایا جائے۔

13: پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں باضابطہ اور غیر اعلانیہ دونوں قسم کی سنسر شپ کا خاتمہ کیا جائے۔

14: میڈیا کمیشن کی رپورٹ کی سفارشات کے مطابق پیمرا کی آزادی کے لیے نئی قانون سازی کی جائے۔

15: سائبر کرائم قانون کی تمام غیر منصفانہ اور جابرانہ دفعات کا خاتمہ کیا جائے۔

16: تمام پبلک اداروں میں ڈیٹا کے تحفظ کے لیے نئی قانون سازی کی جائے۔

17: تمام ضرورت مند مردوں اور خواتین کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی توسیع اور اصلاح کی جائے۔

18: مساوات کمیشن قائم کیا جائے جو صوبوں کی مشاورت سے تمام خواتین اور اقلیتوں کے لیے منصفانہ اجرت اور روزگار پالیسی مرتب کرے۔

19: خواتین کے خلاف تشدد، گھریلو تشدد، تیزاب کے حملوں اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے قوانین پر لازمی عمل در آمد کو یقینی بنایا جائے۔

20: تمام پبلک مقامات، پبلک ٹرانسپورٹ اور پبلک سہولت کے مقامات پر خواتین، بچوں اور خصوصی اقلیتوں کے افراد کا باسہولت داخلہ یقینی بنایا جائے۔

21: 16 سال کی عمر تک کے بچوں کی آئین میں دی گئی شق کے مطابق لازمی تعلیم کو ایک مقررہ مدت کے اندر اندر یقینی بنایا جائے۔

22: قابلِ استطاعت صحت اور علاج معالجے کے حقوق کی فراہمی کو سرکاری اور منظور شدہ نجی شعبے کے اسپتالوں کے نیٹ ورک کے ذریعے یقینی بنایا جائے۔

23: ضرورت مند خواتین کو ایک مقررہ مدت کے اندر اندر زچہ اور بچہ کے سلسلے کی مفت خدمات اور نقد معاوضے کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

24: اقلیتوں کی جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لیے موثر قانون سازی کی جائے اور اس پر عمل درآمد بھی کیا جائے۔

25: صوبائی خود مختاری، آئین کی اٹھارہویں ترمیم اور آئین کی دیگر شقوں کے تحت دیے گئے صوبائی حقوق مثلاً نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے مقررہ وقت پر اجراء کی گارنٹی دی جائے۔

26: بلوچستان کے عوام کے پاکستان کے آئین کے تحت دیے گئے حقوق کی یقینی فراہمی اور ان کی فیصلہ سازی کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے قومی اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے۔

27: ایسے افراد کے سوا جن پر خطرناک نوعیت کے الزامات ہیں تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنایا جائے اور سیاسی گفت و شنید کے ذریعے بلوچ سیاسی رہنماوں کو ملک میں واپس لانے اور ان کو مرکزی سیاسی دھارے میں شامل کرنے پر قومی اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے۔

28: آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت تیل اور گیس پیدا کرنے والے صوبوں کو ان کی تیل اور گیس کی پیداوار پر اپنی ضروریات پوری کرنے کے ترجیحی حقوق کو موثر بنایا جائے۔

29: پر تشدد انتہا پسندی کی بیخ کنی کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔

30: جنوبی پنجاب کے عوام کی شناخت اور ان کی خواہشات کے مطابق جنوبی پنجاب کے نئے صوبے کا قیام اور اس علاقے کو نظر انداز کیے جانے اور اس کی پسماندگی کا خاتمہ کیا جائے۔

31: گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے علاقہ جات کی مالیاتی خود مختاری اور ان کو ان کے ریونیو اور مرکز سے تفویض کردہ مالی وسائل پر مکمل اختیار دیا جائے۔

32: مزدوروں کو قابلِ گزارہ اجرت کی ادائیگی کا حق دیا جائے۔

33: تمام مزدوروں بشمول ان مزدورں کے جو معیشت کے اِن فارمل شعبوں، کنٹریکٹ لیبر، اپنے گھر سے کام، گھریلو ملازمین اور موسمی مزدور ہیں، انہیں سوشل سیکیورٹی کا تحفظ فراہم کیا جائے۔

34: زرعی شعبے کے مزدوروں اور چھوٹے کسانوں پر لیبر قوانین، کم سے کم اجرت کے قانون، سوشل سیکیورٹی اور زیادہ سے زیادہ کام کے اوقات کے قوانین کا اطلاق کیا جائے۔

35: اس وقت سندھ واحد صوبہ ہے جس میں خواتین کھیت مزدوروں کو رجسٹر کرنے اور ان کو قانونی تحفظ اور حقوق فراہم کرنے کے لیے قانون پاس کیا گیا ہے، ان قوانین کو تمام ملک میں لاگو کیا جائے۔

36: زرعی اجناس کی قیمتوں اور ان پر سبسڈی کے لے ایک نیا فریم ورک تشکیل دیا جائے جس سے قومی پیمانے پر غذائی تحفظ کے حق کی پاسداری، مستحکم نرخوں اور شہری اور دیہی عوام کی یکساں آمدنی کو یقینی بنایا جائے۔

37: غریب طبقات کے لیے رہائش کی فراہمی کے حق اور ان کو جبری طور پر گھر سے بے دخل کرنے کے خلاف قانون سازی کی جائے۔

38: کچی آبادیوں اور انتہائی پسماندہ علاقوں کو ریگولرائز کرنے اور ان کو بنیادی شہری سہولتیں فراہم کرنے کے لیے قانونی فریم ورک کی تیاری کی جائے۔

Comments are closed.