بشریٰ بی بی اور میڈیا کی بہتان تراشی
انصار عباسی
وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سوشل میڈیا پر ایک ٹویٹ کے ذریعے ایک بیان دیا جس میں اسلام کا حوالہ دے کر کہا گیا کہ تہمت، تضحیک اور بہتان تراشی اسلامی قانون کے مطابق قابلِ گرفت جرم ہیں۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ خواتین پر تہمت کی سزا تو اسلام میں بہت سخت ہے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہتکِ عزت سول قانون ہے لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ فوجداری قانون بنانا غلط ہے بلکہ بحث یہ ہونی چاہیے کہ قانون کا غلط استعمال نہ ہو۔ فواد چوہدری صاحب کا یہ بیان دراصل پیکا آرڈی ننس کے تنازع سے متعلق ہے۔ مجھے اچھا لگا کہ فواد چوہدری صاحب نے اسلام کا حوالہ دیا۔
مجھے امید ہے کہ وہ ہر معاملہ میں اسلام کا حوالہ دیں گے اور چوں کہ اُن کی وزارت اطلاعات و نشریات ہے اس لیے وہ فلم، ڈرامہ، شوبز اور میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی کے خلاف بھی اسلام کے حوالے دے کر نہ صرف اِس فحاشی کی مخالفت کریں گے بلکہ اُسے روکنے کے لیے ضروری اقدامات بھی کریں گے۔
جہاں تک پیکا آرڈی ننس کا تعلق ہے تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے اسے جلد بازی میں نافذ کیا جس پر صحافی برادری سراپا احتجاج ہے اور اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس قانون میں ایسا بہت کچھ ہے جسے حکمران صحافیوں اور سوشل میڈیا کے استعمال کنندگان کو نشانہ بنانے کے لیے غلط طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں۔
بظاہر اس آرڈی ننس کے نفاذ کی وجہ وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ محترمہ بشریٰ بی بی کے متعلق پھیلائی جانے والے جھوٹی خبریں ہیں جو یقیناً ایک قابلِ مذمت اور قابلِ افسوس عمل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا میں عمومی طور پر اور سوشل میڈیا میں خصوصی طور پر لوگوں کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں.
اُن پر جھوٹے اور غلیظ الزامات لگائے جاتے ہیں اور اس غلاظت کا شکار کوئی بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ جان بوجھ کر جھوٹے الزام لگانے والوں، جھوٹ گھڑنے والوں کی کوئی گرفت نہیں۔ اِس غلاظت کا شکار صرف وزیراعظم یا اُن کی اہلیہ نہیں بلکہ اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔
جج، جرنیل، صحافی اور یہاں تک کہ عام لوگ بھی میڈیا اور سوشل میڈیا کے اِس شر سے محفوظ نہیں۔ سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں تو ایک دوسرے کے خلاف باقاعدہ جھوٹی مہم اور پروپیگنڈہ مہم چلاتے ہیں جس کے لیے سوشل میڈیا ٹیمیں بھی رکھی گئی ہیں۔
اسی کام کے لیے سرکاری اداروں تک نے اپنی سوشل میڈیا ٹیمیں بنا رکھی ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں خصوصاً پی ٹی آئی اور ن لیگ کی طرف سے تو ایسے افراد کو میڈیا کے سامنے بولنے کے لیے پیش کیا جاتا ہے، لگتا ایسے ہے کہ ایسے افراد کی ڈیوٹی ہی یہ لگائی گئی ہے کہ مخالفین پر کیچڑ اچھالا جائے.
اُن کی بے عزتی کی جائے، جھوٹے الزامات لگائے جائیں۔ بدقسمتی سے یہ ہمارا کلچر بنتا جا رہا ہے اور جب آپ سوشل میڈیا کو دیکھتے ہیں تو وہاں تو یہ غلاظت اس حد تک پھیل چکی ہے کہ کسی کی عزت محفوظ نہیں۔ اس گندے کلچر کو روکنے کے لیے ریاست کو اگر ایک طرف قانون سازی کرنی چاہیے.
دوسری طرف ہمارے سیاسی رہنماؤں کا یہ فرض ہے کہ اس گندگی کو ختم کرنے کے لیے پہل کریں اور عوام کے ساتھ ساتھ اپنے ووٹروں، سپوٹروں اور اراکینِ پارلیمنٹ وغیرہ سے اپیل کریں کہ بدزبانی، الزام تراشی، بہتان تراشی، گالم گلوچ سے باز رہیں بلکہ اگر ایسا عمل کرنے والا چاہے کسی بھی سیاسی جماعت میں کتنے ہی اہم عہدے پر براجمان کیوں نہ ہو اُس کی سب کے سامنے سخت سرزنش کریں۔
اس سلسلے میں وزیراعظم عمران خان، نواز شریف، مریم نواز، بلاول بھٹو وغیرہ کو پہل کرنی چاہیے اور سب سے اپیل کرنی چاہیے کہ گندی زبان، گندے الزامات، بہان تراشی لگاکا سلسلہ بند کیا جائے۔ سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی میں مت بدلیں۔ سیاسی رہنما مہذب رویہ اپنائیں گے تو اُن کے پیروکار، ووٹرز اور عوام بھی مہذب ہوں گے۔
باقی جہاں تک قانون سازی کی بات ہے تو میں اس حق میں ہوں کہ قانون بننا چاہیے تاکہ پگڑیاں اچھالنے، بہتان تراشی کرنے اور جھوٹے الزامات لگانے سے لوگ گھبرائیں لیکن قانون سازی کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کریں، غصہ میں بنایا گیا قانون ناقص ہوتا ہے۔ سوچ بچار کے بعد قانون بنائیں اور جب قانون بن جائے تو اس کے نفاذ کو یقینی بنائیں۔ (بشکریہ روزنامہ جنگ)
Comments are closed.