سکھ برادری کا کرپان پر لائسنس کا معاملہ سپریم کورٹ چیلنج کرنے کا اعلان

فوٹو : فائل

لاہور (زمینی حقائق ڈاٹ کام )سکھ برادری کا کرپان پر لائسنس کا معاملہ سپریم کورٹ چیلنج کرنے کا اعلان، سردار امیر سنگھ کہتے ہیں کرپان پانچویں مذہبی ککار ہے.

میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں بسنے والی سکھ برادری نے کرپان سے متعلق پشاورہائی کورٹ کو فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے.

پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے سربراہ سردار امیر سنگھ نے کہا ہم نے وزیراعظم کو اس معاملے پر اپنی تشویش سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے.

ان کا کہنا ہے کہ وہ عدالتوں کا احترام کرتے ہیں تاہم انہیں کرپان سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پرمایوسی ہوئی، یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کرپان صرف مذہبی علامت ہی نہیں بلکہ ان کا مذہبی رکن ہے.

انھوں نے کہا کہ کرپان سے کسی بھی قسم کی پرتشدد کارروائی یا جرم کرنے کا سوچنا بھی سکھوں کے لیے گناہ کبیرہ کے مترادف ہے اسی لئے ساتھ رکھنے کی کورٹس سے استدعا کی۔

امیر سنگھ نے بتایا کہ کرپان چھوٹے سائز کا خنجر ہوتا ہے، سکھوں کے لیے ان کے دسویں گورو گوبند سنگھ جی نے پانچ چیزیں لازمی قراردی تھیں جن میں کچھا، کڑا، کرپان، کیس اور کنگھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بسنے والی سکھ برادری نے اکتوبر 2020ء میں چاروں صوبوں کے ہائی کورٹ میں ایک درخواست جمع کروائی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی.

استدعا کا مقصد سکھوں کے پانچویں مذہبی ککار کرپان کو احاطہ عدالت سمیت تمام سرکاری اداروں میں ساتھ رکھنے کی اجازت طلب کرنا تھا لیکن پشاور ہائی کورٹ نے 22 دسمبر کو اس مقدمے سے متعلق احکامات جاری کر دیئے.

پشاور ہائی کورٹ نے 2012ء کی ہتھیاروں کی پالیسی کے تناظر میں کرپان رکھنے کو لائسنس سے مشروط کر دیا گیا ہے۔پاکستان سکھ گورودارہ پربندھک کمیٹی نے آئندہ ہفتے کمیٹی کا اجلاس بلانے اور متروکہ وقف املاک بورڈ کے حکام سے بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سردار امیر سنگھ نے کہا کہ ہم اس مذہبی معاملے پر مشترکہ لائحہ عمل طے کریں گے اور وزیراعظم عمران خان کو سکھ برادری کی تشویش سے آگاہ کریں گے۔

امیرسنگھ کا کہنا تھا ہمسایہ ملک بھارت سمیت کئی یورپی اورمشرقی ممالک میں سکھوں کو کرپان ساتھ رکھنے کی اجازت ہے، بھارت میں تو سکھ کرپان کی بجائے تلوار بھی ساتھ سجاسکتے ہیں۔

واضح رہے کہ پشاور کی سکھ برادری نے اکتوبر 2020 میں چاروں صوبوں کے ہائی کورٹ میں ایک درخواست جمع کروائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ سکھوں کے پانچویں مذہبی ککار ’کرپان‘ کو احاطہ عدالت سمیت تمام سرکاری اداروں میں ساتھ رکھنے کی اجازت دی جائے۔

درخواست پر پشاور ہائی کورٹ نے بدھ 22 دسمبر 2021 کو اس پر احکامات جاری کیے ہیں جن کے مطابق 2012 کی ہتھیاروں کی پالیسی کے تناظر میں کرپان رکھنے کو لائسنس سے مشروط کر دیا گیا ہے، عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ کرپان کا بھی لائسنس جاری کیا جائے۔

سکھ مذہب کے پانچ ککھوں میں کرپان کا پانچواں نمبر ہے، یعنی پانچ کاف میں بالترتیب کیس، کنگھا، کڑا، کچھیرا اور کرپان آتے ہیں اور سکھ برادری کو یہ اوتار ان کے دسویں مذہبی پیشوا گُرو گوبند سنگھ کی طرف سے 1699 میں دیے گئے.

بتایا جاتا ہے کہ تب سے اب تک یہ سکھ دھرم کا لازم وملزوم جزو ہیں جو ہر سکھ مرد و عورت پر امرت پان (بلوغت کی عمر کے بعد بیعت کرنا) کے بعد فرض ہوجاتے ہیں۔

پھر اس کے بعد زندگی کے تمام معاملات میں یہ پانچ ککار ان کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ سکھ مذہب میں کرپان کو ظلم کے خلاف بغاوت کی علامت کے طور پر رکھا جاتا ہے.

اس حوالے سے پشاور میں سکھوں کے مذہبی سکالر باباجی گروپال کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں امن وامان کی صورتحال بگڑنے کے بعد ان کی کمیونٹی کو کرپان ہمراہ رکھنے کے حوالے سے مشکلات پیش آنے لگیں۔

باباجی گروپال کے مطابق اب کرپان کو وہ حکومتی اداروں میں آزادی کے ساتھ نہیں لے جا سکتے اور اس کی وجہ ہے کہ اسے خنجر سمجھ کر نقصان پہنچانے کا آلہ سمجھا جا سکتا ہے۔

Comments are closed.