وزیراعظم کی غلطیاں اور پریشانیاں؟

شمشاد مانگٹ

وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے گزشتہ تین سال میں جو غلطیاں کی ہیں اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اب بھی ”زیرتربیت“ حکمران ہیں۔محض غلطیاں تسلیم کرنے سے کام نہیں چل سکتا جب تک کہ انکا ازالہ نہ کیا جائے۔وزیراعظم عمران خان کو غلطیوں کی شدت کا احساس خیبرپختونخواہ میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن کے نتائج دیکھ کر ہوا ہے۔وزیراعظم کو شروع دن سے اندھیرے میں رکھنے والے دوست نما دشمن اب بھی انہیں یہ سبق دے رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے پی کے میں ہاری نہیں بلکہ جیتی ہے۔

اگر یہی جیت ہے تو پھر ہار کس کو کہتے ہیں؟۔خیبرپختونخواہ میں مولانا فضل الرحمان اور عوامی نیشنل پارٹی نے فتح کے جھنڈے گاڑھے ہیں اور وزیراعظم کا اس فتح کو تسلیم کرنا ایک اچھی روایت اور عادت ہے۔مگر یہ بھی ضروری ہے کہ اس شکست کی وجوہات فوری تلاش بھی کی جائیں اور انکا تدارک بھی کیا جائے۔وزیراعظم کو چاہئے کہ سب سے پہلے اپنے پڑوس میں بیٹھے ہوئے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے پوچھ گچھ کریں کہ خیبرپختونخواہ کی سیاسی صورتحال بارے انٹیلی جنس رپورٹ وزیراعظم کو بروقت کیوں نہیں دکھائی گئیں؟

کے پی کے میں مولانا فضل الرحمان اور اے این پی کی فتح میں اصل کردار پی ٹی آئی کے ناراض کارکنوں نے ادا کیا اور وہ ٹکٹ نہ ملنے پر خود ہی میدان میں اتر گئے اور پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیراعظم پارٹی کی اس بڑی تباہی کو بالکونی میں کھڑے دیکھتے رہے۔
علاوہ ازیں وزیراعظم کو انٹیلی جنس بیورو اور دیگر اداروں کے سربراہان سے بھی اس غیر متوقع شکست بارے بازپرس کرنی چاہئے ۔اگر چہ ایک وجہ ”مقام فیض“ کی تبدیلی بھی ہوسکتی ہے۔
لیکن!
خیبرپختونخواہ کے رہنماؤں کو از خود وزیراعظم کو بتانا چاہئے تھا کہ پارٹی کے اپنے ہی ورکر ایک دوسرے کے مد مقابل الیکشن میں اتر آئے ہیں۔لیکن مصدقہ اطلاعات ہیں کہ گورنر شاہ فرمان اور وزیراعلیٰ محمود خان ہفتے میں تین دن تیتر اور چکور کا شکار لازمی کھیلنے جاتے ہیں اور سرکاری دربار میں تیتر اور چکور کے گوشت سے دسترخوان سجا کر پارٹیاں کی جاتی ہیں۔

قابل غور پہلو یہ ہے کہ صوبے میں عام لوگوں کے لئے تیتر اور چکور کے شکار کھیلنے پر پابندی ہے لیکن گورنر شاہ فرمان اپنے”شاہی“ فرمان کے ذریعے سرکاری پروٹوکول میں معصوم پرندوں کی نسل کشی مسلسل کر رہے ہیں اور اسی صف میں”محمود“ بھی کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔
لہٰذا خیبرپختونخواہ کے شکار پسند حکمرانوں نے صوبے میں پی ٹی آئی کو مولانا فضل الرحمان اور اے این پی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا.

ان دونوں پارٹیوں نے بلدیاتی الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کا تیتر اور چکور کی طرح شکار کرکے ایک ماہر سیاسی شکاری ہونے کا ثبوت دیا۔وزیراعظم عمران خان اپنے اقتدار کے تین سال پورے کرچکے ہیں لیکن گورننس کو بہتر بنانے کیلئے اب تک کوئی فارمولا انکے ہاتھ نہیں لگ سکا ہے۔وزیراعظم وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اگر بغور تمام وزراءاور مشیروں کے چہرے دیکھ لیں تو انہیں اندازہ ہوجائے کہ انکے ساتھ آئندہ الیکشن میں کیا ہونے والا ہے؟

کیونکہ وفاقی کابینہ کے اگر آدھے چہرے بھی پی ٹی آئی کے اپنے کارکن اور نوجوان ہوتے تووزیراعظم کو گھبرانے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی لیکن موجودہ کابینہ میں شامل سب وزیر اور مشیر فصلی بٹیرے ہیں اور انہیں گیٹ نمبر چار سے جو حکم ملے گا وہ اس چھتری کے نیچے چلے جائیں گے۔

تحریک انصاف کے تین سالہ دور اقتدار میں عوام کے ساتھ جو ہوا سو ہوا لیکن جو پی ٹی آئی کے اپنے کارکنوں اور وزیراعظم کے ٹائیگرز اور ٹائیگرس کے ساتھ ہو چکا ہے وہ آئندہ الیکشن میں وزیراعظم کے دھرنے میں جانے کیلئے اور انہیں کندھوں پر بٹھانے کیلئے سوبار ضرور سوچیں گے۔وزیراعظم کی ترجمانی کرنے والوں پر اگر نظر دوڑائی جائے توان صفوں میں بھی وزیراعظم کا کوئی دیرینہ ساتھی نظر نہیں آتا۔

اگر وزیراعظم کی یہ مجبوری مان بھی لی جائے کہ ’قابل انتخاب“ سرمایہ داروں اور وڈیروں کا پارٹی میں ہونا ضروری تھا تو اس کے باوجود بھی پارٹی ورکروں کو اکاموڈیٹ کرنے کیلئے بہت کچھ تھا مگر پارٹی ورکروں کو وفاق یا صوبوں میں کوئی جگہ دینے کی بجائے بلدیاتی انتخابات میں بھی برے طریقے سے دھتکار دیا گیا اور انکا اعلان بغاوت بالکل درست اور عین وقت پر ہے۔

وزیراعظم نے کی پی کے کو دیکھتے ہوئے تمام تنظیمیں اگر چہ تحلیل کر دی ہیں مگر جو نقصان ہو چکا ہے اس کا ازالہ کیسے ممکن ہوگا؟۔اب وزیراعظم اپنے قریبی رفقاءسے یہ گلے کرتے ہوئے بھی نظر آرہے ہیں کہ مقتدر ادارے میاں نوازشریف کے خلاف کیسز ختم کرکے انہیں واپس لانا چاہتے ہیں۔وزیراعظم کو اس بات کا احساس بھی دو سال بعد ہونا بہت بڑی غلطی ہے۔

وزیراعظم کو اس وقت اداروں سے بغاوت کرنی چاہئے تھی جب انہوں نے میاں نوازشریف کے پلیٹلٹس خود ہی کم کرکے انہیں باہر بھجوا دیا تھا۔کسی بھی لیڈر یا وزیراعظم کا دو سال بعد اداروں کی مداخلت کو محسوس کرنا بذاتخود ایک نااہلی اوربڑی غلطی ہے۔

میاں نوازشریف نے باہر جاکر خوبصورتی سے اداروں پر دباو بڑھایا اور میاں شہباز شریف نے پاوں پکڑے رکھے اور اب چونکہ مقتدر حلقے وزیراعظم سے دور ہو رہے ہیں تو میاں شہبازشریف نے اعلان کردیا ہے کہ گریبان پکڑنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔اسلام آباد میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ وزیراعظم کے پاس مارچ تک کا وقت ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اپنی غلطیوں کا ازالہ کب کرتے ہیں۔وزیراعظم یہ پہلو بھی دیکھ لیں کہ خیبرپختونخواہ کا وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی شکل میں اگر چہ کمزور صحت تھا لیکن پارٹی مضبوط تھی مگر اب وزیراعلیٰ بہت تندرست ہے لیکن پارٹی کمزور ہے۔

Comments are closed.