تلاش جمال میں گم شدہ عورت
خالد مجید
وہ میرے سامنے بیٹھا اب چپ چاپ بھاپ اٹھتی کافی پی رہا تھا ۔ ہماری ملاقات کافی عرصے بعدہورہی تھی
میں بہت دیر سے اس کی باتیں سن رھا تھا اور خاموش تھا
وہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کی باتیں کرتا رہا ۔
پھر اسے بلوچستان وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماداور استعفیٰ یاد آگیا ۔
پھر اس نے ہوا میں قہقہ ا چھالا اور بچوں کے رزلٹ پر بولنے لگا ۔یار خود سوچو جب روٹین میں سکول کالج کھلے ہوتے تھے کبھی گیارہ سو میں سے کسی کے نو سو نمبر نہیں آئے تھے اور سکول کالج بند نہ پڑھائی نہ لکھائی اور نمبر آ رہیے ہزار ، ہزار اور حد تو یہ ہے گیارہ سو میں سے گیارہ سو تیس نمبر بھی آئے ہیں۔
پھر اسے ریلی ، لانگ مارچ ،سڑکوں پر کنٹینرز کی بھرمار پریشان کرنے لگی ۔ پھر اسے ڈالر کا اس قدر مہنگا ہونا اور اپنے روپے کی گرتی قدر وقیمت پریشان کرنے لگی ۔
اور پھر دوسرے ملکوں کی ترقی کے موازنے کرنے لگا ان کی اپنے ملک سے محبت کے تزکرے لے بیٹھا میں تمیں بتاوں اور پھر اس ملک کا ذکر لے بیٹھا جہاں وہ ملازمت کرتا ہے۔
جاپان میں پچھلے تیس سال میں چوری نہیں ہوئی، قتل نہیں ہوا، کوئی بھوکا نہیں سوتا،جب کبھی زلزلہ آتا ہے تو زلزلے کے کیمپوں میں سب کچھ رکھ دیا جاتے ہے کوئی ایک چھٹانک ضرورت سے زیادہ نہیں لیتا دیانتداری میں جاپانی دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں۔
سڑک پر ایک کروڑ پھینک دیں کوئی نہیں اٹھاتا، آپ کندھا لگ جائے تو سامنے والامعذرت کرتا دکھائی دے گا۔
ترقی اور ٹیکنالوجی میں دنیا سے دس سال آگے جیتے ہیں۔
کام اتنا کرتے ہیں کہ وزیراعظم ہاتھ جوڑ کیآرام کے مشورے دیتاہے۔
سیگریٹ کی راکھ جھاڑنے کی ایک چھوٹی سی ڈبیا جیب میں رکھتے ہیں صفائی اتنی ہے کہ سڑکوں میں منہ نظر آئے ۔
پابندی وقت اس قدر ہے کہ پانچ منٹ ٹرین لیٹ ہو جائے تو پوری کمپنی بند کر دی جاتی ہے۔
اخلاق اور انکساری میں اس درجہ بلند ہیں کہ آپ حیرت سے منہ تکتے رہ جائیں
اخلاص اور مہمان نوازی ان کے اندر کوٹ کوٹ کے بھری ھوئی ہے۔
دو نمبری اور بے ایمانی کا تصور محال ہے اور پھر وہ چلا گیا
اسکے جانے کے بعدذہن پر بوجھ بہت تھا اور خود کو مصروف کرنا چاہتا تھا
توایسے میں کتاب بہترین سہارا بنتی ہے لہذاہم نے کتاب اٹھا لی اور پڑھنے لگے "تلاش جمال میں گمشدہ عورت ” یہ افسانوں کا مجموعہ ہے
کتاب کی ایک ایک سطر اپنے ہونے کا احساس دلانے لگی کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ پڑھنے پر اکساتی ہے۔
کتاب کی مصنفہ فرخندہ شمیم ہیں جن سے احترام کا تعلق ہمدم درینہ عارف شیخ کی وساطت سے 2004 یا 2005 سے ہے وہ ان دنوں پی ٹی وی کرنٹ افیئر کے پروگرام کی پروڈیوسر تھیں پھر کبھی کبھار راولپنڈی اسلام آباد کی کسی ادبی ثقافتی تقریب میں ملاقات ہوجاتی تھی
پھر چند سال پہلے ان کا شعری مجموعہ ” ماں "
کسی دوست کی وساطت سے ملا۔ پوری کتاب ماں کی محبت کے لازوال رشتے کی شاعری تھی جس میں ماں سے جدا ہونے والے بچے کی کوک اور فریاد تھی بس شعر کیا تھے دکھ کے پھپھولے تھے جو شاعری کا روپ دھار گئے تھے ۔
میرے بوٹیوب چینل ” اردو لاہبریری ” میں ان کا انٹرویو نشر ھوا تو ایک ملاقات میں انھوں نے ۔۔ تلاش جمال میں گمشدہ عورت ۔۔۔عنایت کی تھی
واہ کمال ہو گیا صرف سترہ افسانوں پر مشتمل کتاب میں ادب ہی ادب ۔۔۔۔ احترام ہی احترام ۔۔۔۔ پھر خواہشوں اور ارمانوں کے درمیان شحصیت کا رکھ رکھاو ۔۔۔۔۔اظہار کو اسقد مہذب لفظوں کا لباس پہنایا گیا ہے کہ احترام آدمیت اور محبت سے محبت ہے نے لگتی ہے ۔
شرم وحیا کے لبادے میں متلاشی عورت کے جذبات احساسات اور تڑپ کے اظہارِ کے لیے لفظوں کا انتخاب کمال عروج پر ہے کہیں کہیں تو یوں احساس ہوتا ہے کہ شرم وحیا کے لبادے میں لپٹی محبت کی متلاشی عورت آسان سے ” ہاں ” پر انکار کا بھاری بھرکم ” ناں "کو ترجیح دے انا کو تسکین دیتی نظر آتی ہے ۔ ہر کہانی آس، یاس ، تڑپ اور کسک کی آنچ کی حرارت دیتی محسوس ہوتی ہے اورکتاب خود پڑھائے چلی جاتی ہے اس دوران زرا نظر کتاب سے ہٹتی تو کانوں میں اس دوست کے الفاظ گونجتے ہوئے محسوس ہوتے۔
جاپان کافروں کا ملک ہے اور ایمانداری میں نمبر ون قرار پا رہا ہے اور ہم کہلا تے تو مسلمان ہیں اور ایمانداری میں نمبر ہمارا 160 واں ہے۔
اور میں کبوتر بن جاتا ہوں اور دوبارہ کتاب اٹھا لیتا ہوں ۔
(khalidmajeed925@gmail.com)
Comments are closed.