پاکستان کی طالبان حکومت کو افغان فوج کی تنظیم نو کی مشروط پیشکش

فوٹو: فائل

اسلام آباد( ویب ڈیسک) پاکستان نے طالبان حکومت کو افغان فوج کی تنظیم نو میں مدد دینے کی مشروط پیشکش کی ہے اور اس سلسلے میں افغان حکام سے بات چیت بھی ہوئی ہے۔

اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں پاکستان کے اعلیٰ عسکری ذرائع کاحوالہ دے کر بتایا گیاہے کہ فغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان افغان فوج کی تنظیم نو میں مدد دینے کے لیے تیار ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاک فوج کے ایک سینیئر افسر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ پاکستان افغان فوج کی تنظیم نو میں مدد کرے گا، انھوں نے بتایا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے حالیہ دورہ کابل کا ایک مقصد اسی معاملے پر بات چیت کرنا بھی تھا۔

اس رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیاہے کہ عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ پیشکش پاکستان کی جانب سے موجودہ افغان حکومت کو تسلیم کیے جانے اور افغان فوج میں تمام حلقوں کی نمائندگی سے مشروط ہے اور اگر ایسا ہو گیا تو بات آگے بڑھے گی تاہم فی الحال اس کا کوئی باقاعدہ روڈ میپ موجود نہیں ہے۔

عسکری ذرائع کے مطابق ایسا کوئی بھی اقدام مستقبل قریب میں اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کر لیا جاتا،
پاکستان اس بارے میں پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت افغانستان کو کسی بیرونی قوت سے کوئی خطرہ نہیں ہے انہیں ایک مضبوط پولیس اور بارڈرمینجمنٹ فورس کی ضرورت ہے، اگر ان کی تربیت کی درخواست کی گئی تو پاکستان کی حکومت اس معاملے پر فیصلہ کرے گی.

واضح رہے امریکہ نے افغانستان کی افواج کی تربیت کا اربوں ڈالر کا منصوبہ 2002 میں شروع کیا تھا جس پر 83ارب ڈالرز خرچ کئے گئے جدید اسلحہ دیا گیا لیکن3لاکھ افغان فوج نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور کوئی مزاحمت نہیں کی تھی۔

اس سے قبل طالبان کے دور حکومت میں 1997 میں طالبان نے اسلامک آرمی آف افغانستان کے نام سے فوج قائم کی تھی جب کہ 1960 سے 1990 تک افغانستان کی مسلح افواج کی تربیت اور ان کے پاس موجود اسلحہ روس کی طرف سے تھا۔

امریکہ نے افغان افواج کی تربیت اور انفراسٹرکچر پر براہ راست 88 ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ کی ہے ابتدائی طور پر افغان فورسز کی تربیت کا انتظام امریکہ کا عسکری تعاون کا دفتر سنبھالے ہوئے تھا، تاہم بعد میں دیگر امریکی ادارے، پرائیویٹ کنٹریکٹرز بھی شامل تھے۔

اس بارے میں سابق سیکرٹری دفاع جنرل (ر)آصف یاسین کہتے ہیں کہ ایسے کام (فوجی تربیت) کا کوئی نقصان نہیں ہوتا مگر ان کا خیال ہے کہ فی الحال ایسے کسی بھی خیال پر عمل نہیں کرنا چاہیے طالبان بہت زیادہ مشوروں سے اب تنگ ہوتے نظر آتے ہیں۔

انھوں نے مشورہ دیا کہ خاموش رہیں صورتحال کا جائزہ لیں اور افغانستان کو اس درخواست کے ساتھ آنے دیں کہ وہ اپنی فوج کی ہم سے تربیت کرانا چاہتے ہیں ہم تیار رہیں، ہمارے پاس قابلیت بھی ہے اور صلاحیت بھی ہمارے پاس تجربہ اور انفراسٹرکچر بھی موجود ہے.

ان کے مطابق افغانستان کے لیے بھی اگر پاکستان کے فوجی دستے گئے تو پاکستان خود ہی ان کو تنخواہیں دے گا لیکن فضائیہ کی تربیت خاصی مہنگی ہوتی ہے اگر ایسا کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو اس میں پاکستان ہرگز اکیلا نہیں ہوگا ۔

اس وقت پاکستان میں 759 غیر ملکی افسران زیرتربیت ہیں، جن میں سے بیشتر کا تعلق عرب اور افریقی ممالک سے ہے پاکستانی فوج تین سطح پر تربیت فراہم کرتی ہے جس میں سب سے پہلے پی ایم اے کا گریجویٹ کورس ہے۔

دیگر رینکس کے لیے ملک میں موجود ریجنل تربیتی مراکز اور سینیئر افسران کے لیے سٹاف کالج، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور دیگر انسٹالیشنز ہیں،خپاکستان کی مسلح افواج نے 1970 کی دہائی کے دوران مختلف ممالک، خاص طور پر عرب ممالک کے ساتھ دفاعی تعاون اور فوجی تربیت فراہم کرنے کے معاہدے کیے۔

رپورٹ کے مطابق 1980 کی دہائی میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب پاکستان کے ساٹھ ہزار اہلکار عرب ممالک میں تعینات تھے جن میں سب سے زیادہ یعنی 20 ہزار صرف سعودی عرب میں موجود تھے یہ اہلکار ان ممالک کی افواج کی تربیت اور بنیادی انفراسٹرکچر قائم کرنے میں ان کی مدد کر رہے تھے.

پاکستان نے سعودی عرب، لیبیا، اردن، عراق، اومان متحدہ عرب امارات اور کویت کے ساتھ تربیتی معاہدے کیے واضح رہے کہ ان ممالک کے یہ معاہدے صرف پاکستان کے ساتھ نہیں تھے اسی طرح سری لنکا میں انسداد دہشت گردی آپریشنز میں پاکستان نے ان کی فوج کی مدد کی تھی۔

اس وقت جہاں دیگر ممالک کے کیڈٹس اور افسران پاکستانی فوج کے مختلف تربیتی اداروں میں زیر تربیت ہیں، اسی طرح خود پاکستان کے افسران اور سروس مین بھی دیگر ممالک میں تربیت پاتے ہیں اس سلسلے میں پاکستان کا برطانیہ، ترکی، امریکہ اور چین کے ساتھ تعاون کے معاہدے موجود ہیں.

Comments are closed.