پاکستان نہیں ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان کو قبضہ کے قابل بنایا، امریکی سینیٹر
فائل فوٹو:رائٹرز
اسلام آباد( ویب ڈیسک)افغانستان میں شکست پر امریکہ میں ردعمل آنے کا سلسلہ جاری ہے اور اب امریکی سینیٹر کرس وان ہولن نے الزام لگا یا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کی حمایت کرکے طالبان کو افغانستان پر قبضہ کرنے کے قابل بنایا ۔
امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کی سماعت میں ، کچھ ریپبلکن قانون سازوں نے بائیڈن انتظامیہ کو افراتفری کا ذمہ دار ٹھہرایا – اور طالبان کے قبضے پر بھی تنقید کی جو کہ گزشتہ ماہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ہوا۔
امریکی سینیٹر کرس وان ہولن نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کی حمایت کی تھی جس نے اس وقت کی امریکی حکومت کی طرف سے افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کی درخواست پر تین اعلیٰ طالبان کمانڈروں کو رہا کیا تھا۔
کراچی میں پیدا ہونے والے میری لینڈ کے ڈیموکریٹ سینیٹر نے افغانستان سے امریکی انخلا پر سینیٹ کی پہلی سماعت میں دلیل دی کہ یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ وہ اپنے پڑوس میں ‘انتشار اور خانہ جنگی کو روکے۔
سینیٹر وان ہولن نے سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کے ساتھ بات چیت کی جو مرکزی گواہ تھے،کیا یہ حقیقت نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستانی حکومت سے کہا کہ تھا وہ اس عمل کے ایک حصے کے طور پر تین اعلیٰ طالبان کمانڈروں کو رہا کرے۔
سینیٹر وان ہولن نے عبدالغنی برادر کے رہا ہونے والوں میں شامل ہونے، دوحہ مذاکرات میں سابق افغان حکومت کو شامل نہ کرنے اور ان پر 5000 طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے، وغیرہ جیسے کئی سوالات پوچھے، انٹونی بلنکن نے ان کے موقف کی حمایت کی۔
امریکی سینیٹر نے اس معاہدے کو بھی اٹھایا جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی افواج مئی تک نکل جائیں گی اور ان پر حملہ نہیں کیا جائے گا تاہم افغان فورسز پر حملہ کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے جس پر انٹونی بلنکن نے کہا کہ وہ درست ہیں۔
سینیٹر وان ہولن نے کہا کہ ‘افغانستان میں ایک کہاوت ہے پارٹنرز کے پاس گھڑیاں ہیں، ہمارے پاس وقت ہے چنانچہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس مذاکرات کے ذریعے طالبان کے لیے سب کچھ ترتیب دیا، افغان فورسز پر حملے کے لیے گرین سگنل دیا۔
سماعت کے دوران سینیٹر وان ہولن نے سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کو یاد دلایا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر جو بائیڈن پر بھی مئی تک افواج نہ نکالنے پر تنقید کی تھی جیسا کہ امریکا طالبان معاہدے میں طے پایا تھا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ بائیڈن انتظامیہ نے اب پاکستان اور بھارت دونوں کو ایک میز پر رکھا ہے کیونکہ علاقائی پلیئرز کو شامل کیے بغیر افغان تنازع حل نہیں ہو سکتا۔
ان کا موقف تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ان ممالک میں سے کم از کم پاکستان، بھارت کی طرح اور دیگر کی طرح افغانستان میں انتشار اور خانہ جنگی کو روکنے میں دلچسپی رکھتے ہیں،پھر کہا کہ ظاہر ہے ہم نے پاکستان سے کہا تھا کہ وہ قیدیوں کو رہا کریں۔
انھوں نے کہا یہ بھی ظاہر ہے کہ ہمیں آئی ایس آئی (انٹر سروسز انٹیلی جنس) پر نظر رکھنی ہوگی، میرا یہ ماننا ہے تاہم اب ہم سب کو مل کر ایک مستحکم افغانستان کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے جو اپنے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔
انٹونی بلنکن نے کہا کہ امریکا چین، روس اور پاکستان جیسے ممالک سے آگاہ ہے جو افغانستان کی صورت حال کو حل کرنے کی کوشش میں اہم ہیں،یہ ایسی صورتحال ہے جس کے بارے میں ہمیں بہت ہوشیار رہنا ہوگا۔
کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر باب مینینڈیز نے مشاہدہ کیا کہ طالبان اب افغانستان پر حکومت کر رہے ہیں لہٰذا عالمی برادری کو کسی نہ کسی شکل میں اس سے نمٹنا ہو گا،تاہم ہمیں اب خود سے مذاق نہیں کرنا چاہیے، بدلے ہوئے طالبان نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
انہوں نے سینیٹ سے امریکا طالبان مذاکرات سے قبل عائد پابندیاں دوبارہ لگانے پر زور دیا تاہم انہوں نے زندگی بچانے والی انسانی امداد کو انتہائی کمزوروں تک پہنچنے کی اجازت دینے کی بھی اپیل کی۔
انہوں نے کہا کسی بھی ملک کو اس حکومت کو یکطرفہ طور پر تسلیم کرنے کے لیے جلدی نہیں کرنی چاہیے، انتظامیہ سے درخواست کریں کہ وہ افغانستان پر توجہ مرکوز رکھے۔
کمیٹی کے سینیئر ریپبلکن سینیٹر جیمز ریش نے کہا کہ جو بائیڈن انتظامیہ طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا چاہتی ہے تاہم خبردار کیا کہ یہ کانگریس کی وسیع مشاورت کے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔انہوں نے یاد دلایا کہ کمیٹی کے چیئرمین نے اسے ایک مشکل مگر اہم صورتحال کہا تھا، ہمیں اس پورے معاملے میں پاکستان کے کردار کو بھی سمجھنا چاہیے،
Comments are closed.