طالبان حکومت کو کون سے ممالک فوری تسلیم کر سکتے ہیں؟
محبوب الرحمان تنولی
اسلام آباد: کابل پر طالبان کے غلبہ حاصل کرنے کے بعد پڑوسی ممالک سمیت دنیا کے اہم ملکوں نے اپنی نئی صف بندی پر کام شروع کر دیا ہے.
ترک صدر طیب اردوان کا وزیراعظم عمران خان سے ٹیلی فونک رابطہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا جس میں دونوں رہنماؤں نے افغانستان کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا.
وزیراعظم آفس سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد ایک بار پھررابطہ ہو گا، وزیراعظم عمران خان اور ترک صدر دوبارہ مشاورت کریں گے۔
وزیراعظم عمران خان نے ترک صدر کو بتایا کہ پاکستان کابل میں موجود سفارتی عملے اور عالمی اداروں کے اسٹاف کو بحفاظت نکالنے کے لیے سہولت فراہم کررہا ہے۔
باہمی گفتگو میں طے پایا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیراعظم عمران خان اور ترک صدر دوبارہ مشاورت کریں گے۔
وزیراعظم نے افغان تنازع کے سیاسی حل کے لیے کوششیں جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
ذرائع کے مطابق حکومت پاکستان نے طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق فیصلہ کرنے کے آپشن کو ترجیح دی ہے.
سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر چین نے طالبان کے اقتدار میں آنے کے فوری بعد طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا تو پاکستان بھی تقلید کرے گا اور اس بات کا امکان ہے کہ روس بھی تسلیم کر سکتا ہے.
طالبان کی سابق حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے فوری بعد پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ملا عمر کی حکومت کو تسلیم کیا تھا لیکن اب سعودیہ اور یو ای اے امریکہ کے زیادہ زیرِ اثر ہیں.
اب یہ افغان طالبان کے رویہ پر بھی انحصار ہے کہ وہ کس ملک کو کتنی اہمیت یا ترجیح دیتے ہیں اور ان کی پالیسیاں ماضی سے کتنی مختلف اور عالمی برادری یا کم از کم قریبی ممالک کیلئے کتنی سازگار ہوں گی.
ذرائع کا کہنا ہے کہ امکان غالب ہے کہ وہ پاکستان کی پوزیشن کو سمجھتے ہوئے اس رویہ سے گریز کریں گے جس پر اشرف غنی نے چلتے ہوئے بھارتی مقاصد کیلئے پاکستان کو قریب نہیں آنے دیا.
طالبان نے صدارت اپنے پاس رکھ کر مخلوط حکومت بنائی تو ان کیلئے ایڈجسٹ کرنا آسان ہو گا اور اگر یہ عہدہ کسی آزمائے ہوئے سابق عہدیدار کو دیا گیا تو افغانستان کے اندر ایک نئی محاذ آرائی کا خدشہ موجود رہے گا.
کابل کی طرف پیش قدمی سے قبل طالبان رہنماؤں کے دورہ چین کے دوران چین کے ساتھ اعتماد سازی کو پیش نظر رکھا گیا تو طالبان کو خطے میں پاکستان اور چین کی صورت میں مضبوط سیاسی حلیف مل جائیں گے.
طالبان نے حالیہ لڑائی اور پیش قدمی کے دوران بھارت کی چالیں ناکام بنانے کے علاوہ کسی پڑوسی ملک کے مفادات کو ٹھیس نہیں پہنچائی ہے اس لیے روس اور ایران کیلئے بھی طالبان حکومت قابل قبول ہو گی.
پاکستان نے طالبان حکومت کو تسلیم کر لیا تو پھر ترکی اور سعودی عرب بھی تسلیم کر سکتے ہیں تاہم نیٹو کا اتحادی اور افغانستان میں موجودگی کی وجہ سے ترکی کو طالبان حکومت کا اعتماد بحال کرنا ہو گا.
دوسری طرف شکست خوردہ امریکہ اور اس کے اہم اتحادی برطانیہ، انڈیا اور اسرائیل مختلف حیلے بہانوں سے خرابی پیدا کرنے کے جواز تلاش کریں گے تاکہ طالبان حکومت کو عدم استحکام کا شکار کیا جا سکے.
کابل پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد اب طالبان کو حکومت بنانے اور چلانے کیلئے بالغ نظری کی ضرورت ہے خاص کر اپنے شہریوں کا اعتماد بحال کرنا اور ملک میں سیاسی استحکام لانا پہلا اور ناگزیر ہدف ہے.
طالبان حکومت کو اہم ممالک کی طرف سے فوری تسلیم کئے جانے کے بعد عالمی برادری میں زیادہ اہمیت مل جائے گی اسی لئے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے مطالبہ کیا ہے کہ طالبان حکومت کو تسلیم نہ کریں.