پاکستان میں فیس بک مونیٹائز یشن کب اور کیسے ہوگی؟
فوٹو : فائل
اسلام آباد( ویب ڈیسک) فیس بک پاکستان میں مونیٹائز کیوں نہیں ہو رہی یہ سوال سوشل میڈیا صارفین اکثر کرتے نظر آتے ہیں لیکن اس کی وجہ صرف فیس بک انتظامیہ نہیں بلکہ حکومت کی طرف سے قانون سازی نہ ہونا بھی مونیٹائز یشن میں رکاوٹ ہے۔
فیس بک حکام اس بات کا قانونی تحفظ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر پابندی کا سلسلہ بند ہونا چایئے تاکہ سوشل میڈیا بلا تعطل کام کرتا رہے اور فیس بک کے ساتھ ساتھ صارفین بھی کام کرتے رہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پانچ کروڑ سے زائد افراد فیس بک استعمال کرتے ہیں اور یوٹیوب کے مقابلے میں فیس بک سے پیسے کمانا زیادہ آسان ہے لیکن پاکستان میں مونیٹائز ہونے میں رکاوٹیں ہیں۔
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حکام فیس بک مونیٹا ئزیشن کے لیے سوشل میڈیا سائٹ کے ساتھ رابطے میں ہیں لیکن تاحال فریقین ایک دوسرے کو مطمئن نہیں کرسکے جس کی وجہ سے عام شہری بھی فیس بک کے کمرشل استعمال سے محروم ہے۔
فیس بک کے پاکستان میں مونیٹائز نہ ہونے کے باوجود بھی بڑی تعداد میں لوگ بیرون ملک آئی ڈی یا فیس بک پیجز بنا کر فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن ان کی قانونی حثیت پر سوال اٹھا یا جاسکتاہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت پاکستان سوشل میڈیا پر پابندی عائد نہ کرنے کے حوالے سے قانون سازی کرنے کو تیار ہے تاہم حکومت چاہتی ہے کہ فیس بک انتظامیہ پاکستان میں دفتر بنائے تاکہ شکایات کا مقامی سطح پر ہی سد باب ہوتارہے ۔
حکومت کی طرف سے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پاکستان آنے کی دعوت پر انکار نہیں ہے تاہم سوشل میڈیا کی کمپنیاں یہ موقف اپنا رہی ہیں کہ انھیں دفتر کھولنے کا پابند نہیں بنایا جاسکتا تاہم وہ اپنی مرضی سے جب چاہیں دفتر کھول لیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس طرح معاملا جوں کا توں رہنے سے فیس بک اور صارفین دونوں کا نقصان ہو رہاہے،حکومت اگر پہل کرتے ہوئے قانون سازی کرلے تو پاکستان میں بڑھتی بے روزگاری پر قابو پایا جاسکتاہے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی صارفین کی بڑی تعداد سوشل میڈیا بالخصوص یوٹیوب چینلز کے زریعے پیسے کما رہی ہے اور فیس بک کی قانونی مونیٹائزیشن سے صارفین کو آمدنی کا ایک اور زریعہ مل جائے گا۔
آزاد اعداد و شمار کے مطابق یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ، فیس بک نے ہر ماہ لاکھوں صارفین کو اپنی سب سے بڑی منڈیوں میں کھو دیا ہے ، کیونکہ متبادل سوشل نیٹ ورکس آن لائن کھیل کے میدانوں کی تلاش کرنے والوں کی توجہ اپنی طرف راغب کررہے ہیں۔
اس حوالے سے تجزیہ کرنے والی فرم سوشل بیکرز کے مطابق ، گزشتہ سالوں میں ، دنیا کے سب سے بڑے سوشل نیٹ ورک نے 6 ملین سے زیادہ صارفین کو اپنی غیر ضروری پابندیوں کی وجہ سے کھو دیاہے، فیس بک نے امریکہ میں تقریبا 9 ملین ماہانہ اور برطانیہ میں 2 لاکھ کھوئے ہیں۔
دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق صارفین کینیڈا ، اسپین ، فرانس ، جرمنی اور جاپان میں بھی بند ہورہے ہیں ، جہاں فیس بک کی اپنی سب سے بڑی پیروی ہوتی ہے۔ فیس بک کے ترجمان نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق فیس بک کی طرح یوٹیوب چینلز پر بھی صارفین جہاں لاکھوں لوگ پیسے کما رہے ہیں وہاں لاکھوں ہی لوگ یوٹیوب چینلز کی یکطرفہ پابندیوں کی زد میں ہیں اور انھیں ان کارروائیوں کو چیلنج کرنے کا پلیٹ فارم میسر نہیں ہے۔
گوگل پر سرچ کرنے سے حیرت انگیز طور پر گوگل ایڈ سنس سے متعلق بھی لاکھوں شکایات سامنے آتیں ہیں کہ ایڈ سینس انتظامیہ بعض بے بنیاد اعتراضات لگا کر ایڈسینس معطل یا ختم کردیتاہے اور عام صارف ان کے اس اقدام کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کرسکتا۔
ڈیجیٹل میڈیا کے ماہر فرحان یونس کہتے ہیں کہ یہ خبر ریکارڈ پر موجود ہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ میں گوگل ایڈ سینس نے بعض ایسے یو ٹیوب چینلز یا ویب سائٹس کی مونیٹائزیشن معطل کیں جن پران کمپنیوں کے اٹھائے گئے اعتراضات کی کوئی قانونی حثیت نہیں بنتی۔
فرحان یونس نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک ویب سائٹس کو یہ کہہ کر اس کے اشتہارات معطل کردیئے گئے کہ اس کی سائٹ سے اشتہارات پر غیر ضروری کلکس کئے جارہے ہیں حالانکہ وہ کلیکس مختلف شہروں سے ہوئے اور ان صارفین نے کئے جو ریگولر وزیٹرز تھے۔
انھوں نے سوال کیا کہ کیا بڑ ی بڑی کمپنیوں کے جو اشتہارات چلتے ہیں انھیں تین دن ریگولر کلکس کرکے معطل کرایا جاسکتاہے؟ اگر یہ اعتراض جائز سمجھ لیا جائے تو پھر تو کوئی بھی مخالف یہ حربہ آزما کرمخالف سائٹ یا یو ٹیوب چینلز کی مونیٹائزیش معطل کراسکتاہے۔