بیساکھیوں کو اپنی فتح اور کامیابی کی علامت سمجھتی ہوں، ڈاکٹر آسیہ نظیر
ثاقب لقمان قریشی
معروف خصوصی سائیکالوجسٹ ڈاکٹر آسیہ نظیر کا انٹرویو
رہائش: لاہور آبائی علاقہ: تحصیل شکر گڑھ ،گاؤں گھمٹالہ
تعلیم: 1۔ایم-فل سپیچ لینگویچ پیتھالوجی 2۔ایم-ایس –سی کلینیکل سائیکالوجی
شعبہ: سائیکالوجسٹ (سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ )
خاندانی پس منظر
والد صاحب ذراعت کے شعبے سے وابستہ رہے ۔ خاندان ایک بھائی اور تین بہنوں پر مشتمل ہے۔ بھائی اور بہن نے ایم-بی-اے تک تعلیم حاصل کی ہے، جبکہ دوسری بہن نے ایم-اے ایجوکیشن کر رکھا ہے۔ سب شادی شدہ ہیں اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔
زمینی حقائق ڈاٹ کام کی ان سے نشست کا احوال کچھ یوں ہے!
سوال: معذوری کا شکار کیسے ہوئیں؟
چھ سے آٹھ ماہ کی عمر میں پولیو کا شکار ہوئیں۔ گاؤں کی زندگی میں سہولیات اور آگہی کی کمی کی وجہ سے گھریلو ٹوٹکوں اور مالشوں سے علاج کا آغازہوا۔ پھر کسی نے بڑے ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیا۔ جب ہسپتال کے علاج سے کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہوا تو مساجوں اور مالشوں کا سلسلہ پھرسے شروع کر دیا گیا۔ تھوڑا ہوش سنبھالا تو بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے حرکت کرنا چیزوں کو پکڑ کر کھڑا ہونا شروع کر دیا۔
سوال: بچپن کیسا گزرا؟ کس قسم کے کھیل کھیلا کرتی تھیں؟
بچپن محرومیوں اور امتیازی سلوک کا مقابلہ کرتے کرتے گزر ا۔ معذوری کو دل سے تسلیم کرنے تک ہر بچہ وہ کھیل کھلینے کی کوشش کرتا ہے جو عام بچے کھیلتے ہیں وہ عام بچوں کی طرح اٹھنے بیٹھنے اور بھاگنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اس زمانے میں پیٹو گرم اور چھپن چھپائی بچوں کے پسندیدہ ترین کھیل تصور کیئے جاتے تھے۔ آسیہ ضد کرتیں تو انھیں ٹیم میں رکھ تو لیا جاتا تھا لیکن اس شرط پر کہ جب تک یہ گوٹیاں ترتیب نہیں دے لیتی کوئی گیند نہیں مارے گا۔ لیکن جیسے ہی ان کی ٹیم جیتنے لگتی یہ شرط ختم کردی جاتی اور انھیں باہر بیٹھنے کو کہا جاتا۔
سوال: بچپن کا کوئی ناقابل فراموش واقعہ بیان کریں؟
بچوں کو کھیلتا دیکھ کر باہر بیٹھ جایا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ بچے گھر سے تھوڑا دور کھیل رہے تھے ،آسیہ کو بھی وہیں بٹھا دیا گیا۔ کھیل کود کے بعد بچے گھروں کو چلے گئے لیکن انھیں ساتھ لے کر جانا بھول گئے۔ کافی دیر بعد گھر والوں کے دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ بچے انھیں میدان ہی میں بھول آئے ہیں۔ اس واقعے سے گھر والوں کو بہت دکھ ہو ا پھر انھوں انکے باہر آنے جانے پر کڑی نظر رکھنا شروع کر دی۔
سوال: ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی اور کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
ذاتی مسائل کی وجہ سے خاندان کو جوہر آباد ڈسٹرکٹ خوشاب میں رہائش اختیار کرنا پڑ ی۔ بہن بھائیوں کو سکول جاتا دیکھ کر ننھی آسیہ کا بھی سکول جانے کو دل کرتا -سکول جانے کا شوق آہستہ آہستہ ضد میں تبدیل ہونے لگا۔ آخر کار بڑے بھائی کے سکول میں داخلہ کروا دیا گیا تاکہ کسی مسئلے کی صورت میں فوری مدد فراہم کی جاسکے۔ سکول میں رسائی اور موبلٹی جیسے بڑے مسائل درپیش تھے۔ بچوں کو بھاگتا دوڑتا دیکھ کر کھیلنے کو جی چاہتا تھا ۔
پرائمری کے بعد ہائی سکول میں داخلہ ہوا تو رسائی اور موبلٹی کے حوالے سے والدین کی تفتیش مزید بڑھنے لگی- تمام تر مشکلات کے باوجود آسیہ اچھے نمبروں میں میٹرک پاس کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔
سوال: کالج کی تعلیم کیسے حاصل کی اور بڑے بھائی آپ کو پرائیوٹ تعلیم کیوں دلوانہ چاہتے تھے؟
بڑے بھائی نےکالج کی بھاگ دوڑ والی زندگی کو دیکھتے ہوئے آسیہ کو پرائیویٹ تعلیم حاصل کرنے کامشورہ دیا ۔ پڑھائی کی شوقین آسیہ نے پرائیویٹ پڑھنے سے صاف انکار کردیا اور ایف-ایس-سی میں بہترین نمبر لے کر ایک بار پھر سے پورے خاندان کو حیران کر دیا۔
سوال: میڈیکل کالج میں داخلہ کیوں نہ ہوسکا؟
بچپن ہی سے ہی ڈاکٹر بننے کا شوق تھا۔ ایف-ایس-سی میں اچھے نمبر حاصل کرنے کے بعد میڈیکل کالج میں داخلے کی خواہش ظاہر کی۔آسیہ کی اس خواہش نے گھر والوں کیلئے ایک نئی مصیبت کھڑی کر دی۔ میڈیکل کی تعلیم دو ہی صورتوں میں ممکن تھی۔ پہلی صورت میں ہاسٹل میں رہائش اختیار کرنا پڑتی جبکہ دوسری صورت میں پورے خاندان کو میڈیکل کالج کے نزدیک گھر لے کر رہنا تھا گھر والوں کیلئےدونوں صورتیں نہ قابل قبول تھیں۔ اسی سوچ بچار میں داخلے کا وقت گزر گیا۔
سوال: بی ایس سی کے دوران خوش کیوں نہیں رہتی تھیں؟
میڈیکل کالج میں داخلہ نہ ہونے کی وجہ سے پڑھائی بوجھ لگنے لگی تھی۔ کبھی کبھی اپنے آپ کو بہت کمزور سمجھنے لگتی تھیں۔ پھرآہستہ آہستہ اسے قدرت کا فیصلہ سمجھنا شروع کر دیا اور اچھے نمبر لے کر ایک بار پھر سب کو حیران کر دیا۔
سوال: سائیکالوجی ہی میں ایم اے کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
بی ایس سی میں سائیکالوجی آسیہ کا پسندیدہ ترین مضمون تھا لیکن اس وقت تک یونیورسٹی آف سرگودھا نے سائیکالوجی میں ایم ایس سی کا پروگرام شروع نہیں کروایا تھا۔ گھر والوں کی خواہش تھی کہ یہ گھر میں رہتے ہوئے پرائیویٹ ایم اے کر کے اپنا تعلیمی سفر مکمل کر لیں لیکن آسیہ ہار ماننے کو تیار ہی نہیں تھیں۔
اپنی مرضی کامضمون نہ ملنے کی وجہ سے ایم اے میں داخلہ نہیں لیا اور اس سال بی-ایڈ کر لیا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اگلے سال یونیورسٹی آف سرگودھا نے ایم ایس سی سائیکالوجی کےپروگرام کا آغاز کر دیا ۔ ایم ایس سی کیلئے انھیں ہاسٹل میں رہنا تھا اسلیئے گھر والے راضی نہیں ہو رہے تھے۔ آسیہ کہتی ہیں کہ انھوں نے ہاسٹل کی دو سالہ زندگی کو خوب انجوائے کیا۔ ہاسٹل کی زندگی نے انھیں اتنا خود مختار کر دیا کہ اپنے آپ کو نارمل محسوس کرنے لگ گئیں۔
سوال: سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں کیا خدمات سر انجام دے رہی ہیں؟
آسیہ نے اپنی ساری تعلیم نارمل سکول، کالج اور یونیورسٹی سے حاصل کی ہے۔ زندگی میں کبھی اپنے خصوصی ہونے کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ 2008 میں سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں سلیکشن میرٹ کی بنیاد پر ہوئی۔ اٹھاریویں گریڈ میں بطور سائیکالوجسٹ خدمات دے رہی ہیں۔
سوال: بطور سائیکالوجسٹ خصوصی بچوں کے والدین میں کس چیز کی کمی محسوس کی؟
بارہ سالہ طویل کیرئیر میں انھیں ذیادہ تر والدین ایسے ملے جنھوں نے بچوں کو بہت ذیادہ پیمپرڈ کر رکھا اتھا۔ یہ بچے گھر کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ عام لوگوں میں خود ؎کو غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں۔ دوسرا طبقہ وہ تھا جنھوں نے لاڈ اور پیار دے کر بچوں کی عادات کو خراب کر دیا تھا ۔
آسیہ خصوصی بچوں کے والدین کو یہی مشورہ دیتی ہیں کہ خصوصی بچوں کو بالکل عام بچوں کی طرح ٹریٹ کریں۔ انھیں عام بچوں کے ساتھ کھیلنے کودنے کا موقع دیں عام بچوں کے سکولوں میں پڑھانے کی کوشش کریں تاکہ یہ اپنے آپ کو اسی معاشرے کا حصہ سمجھیں، حالات سے لڑنا اور مقابلہ کرنا سیکھیں۔
سوال: سپیچ لینگویچ پتھالوجی میں ایم فل کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ لاہور ٹرانسفر کیوں کروائی؟
سپیشل ایجوکشن ڈیپارٹمنٹ میں کچھ عرصہ نوکری کے بعد آسیہ نے محسوس کیا کہ بچوں میں سب سے بڑا مسئلہ کمیونیکشن کا ہے اور اگر یہ اس میں ڈگری کر لیتی ہیں تو انسانیت کی بہتر خدمت کرپائیں گی۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش تھا کہ جوہر آباد میں کوئی ایسا انسٹیٹوٹ نہیں تھا جو سپیچ لینگویج میں ڈگری کروا رہا ہو۔ مزید تعلیم کے حصول کیلئے لاہور جانے کا فیصلہ کیا جب گھر والوں کو اس چیز سے آگاہ کیا تو سب نے تحفظات کا اظہار کیا۔ آسیہ کہتی ہیں لاہور شہر میں ٹرانسفراور رفاء جیسے مہنگے ترین ادارے میں داخلے کے تمام مراحل انھوں نے کسی کی مدد کے بغیر ہی طے کیئے۔ دو سال یونیورسٹی کی فیس، ٹرانسپورٹ کا کرایہ اور ہاسٹل کی فیس جیب سے ادا کرتی رہیں ۔
سوال: شادی کیسے ہوئی؟ کیا آپ کے شوہر نارمل ہیں؟
نند صاحبہ آسیہ کے ساتھ جاب کرتی تھیں۔ انکی قابلیت اور کفایت شعاری کو دیکھتے ہوئے انھوں نے رشتہ اپنے بھائی کے سامنےرکھا۔ اویس نے خوش دلی سےاس رشتے کو قبول کیا۔ ڈاکٹر صاحبہ کی تیئس ماہ کی ایک بیٹی ہے۔ جسکا نام ابلاج ہے۔
سوال: کھانے میں کیا پسند ہے ؟ کیا کوکنگ بھی کر لیتی ہیں؟
کھانے میں ہر چیز پسند ہے۔ کچن کی شاپنگ لے کر کھانا بنانے تک سارے کام خود کر تی ہیں۔ فاسٹ فوڈ، دیسی، کانٹیننٹل سے لے کر ڈزرٹ تک بہترین بنا لیتی ہیں۔ آسیہ کہتی ہیں کہ شادی کے بعد سے آج تک انکے گھر میں بازار کھا کھانا نہیں آیا۔
سوال: فارغ اوقات میں کیا کرتی ہیں؟
ہر وقت کچھ نیا کرنے کی تلاش میں رہتی ہیں۔ فارغ وقت میں گھر کے کام اورکھانے کی نئی سے نئی چیزیں بنانا پسند کرتی ہیں۔
سوال: مستقبل میں کیا کرنا چاہتی ہیں؟
ڈاکٹر صاحبہ سمجھتی ہیں کہ خصوصی افراد عام لوگوں سے ذیادہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ جدید سہولیات سے آراستہ بحالی سینٹر قائم کرنا چاہتی ہیں جہاں سپیچ اور نفسیاتی مسائل کا مفت علاج کیا جاتا ہو۔
سوال: بطور ماہر نفسیات خصوصی افراد کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
اللہ تعالٰی نے دنیا میں کوئی چیز بیکار نہیں پیدا کی۔ خصوصی افراد سب سے پہلے اپنے آپ کو عزت دینا سیکھیں اپنے مقصد حیات کو جاننے کی کوشش کریں۔ جتنا ممکن ہو اپنے آپ کو خود مختار اور بااختادر کریں۔اپنے معیار زندگی کو بڑھانے کیلئے تعلیم اور ہنر پر خاص توجہ دیں۔