مانسہرہ،3ہزار سالہ شیوا مندر کے رکھوالے مسلمان

0

ویب ڈیسک

مانسہرہ( حارث الرحمان) صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر مانسہرہ میں ایک تین ہزار سال پرانا مندر موجود ہے، یہ مندر مانسہرہ شہرسے تقریبا 15 کلومیٹر کے فاصلے پر چٹی گیٹی گاؤں میں واقع ہے۔ اس گاؤں میں کوئی ہندو آباد نہیں مگر مقامی مسلمان بھی اس مندر کی رکھوالی کرتے ہیں۔ اس مندر کا تحفظ مقامی آبادی اور پولیس کرتی ہے۔

شیوا مندر کے قریب رہائش پذیر علی احمدنے بتایا کہ مقامی افراد کو مندر یا ہندوؤں کی عبادات سے کوئی مسئلہ نہیں بلکہ یہاں پاکستان کے دیگر شہروں سمیت دنیا بھر سے پوجا کے لیے آنے والے ہندوؤں کی مہمان نوازی کی جاتی ہے، انھوں نے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے علاقے کے لوگ مذہبی انتشار، ذات پات سے بالاتر ہوکر ہندوؤں کی مذہبی عبادت گاہ کے تحفظ میں کردار ادا کر رہے ہیں۔

مانسہرہ: ملک بھر سے آئے ہندو مذہبی رسومات میں مصروف

اس مندر کی عمارت دو منزلہ ہے۔ گراؤنڈ فلور بند ہے جبکہ بالائی منزل پر ایک ہال ہے اور اس میں تراشا ہوا سفید شیو پتھر موجود ہے، جسے ہندوشیو لنگم کے نام سے پکارتے ہیں۔ ہندوؤں کے دیگر دیوتا جن میں گنیش دیوتا، شیو دیوتا، نندی جی اور مختلف مورتیوں کے پوسٹر دیوار پر آویزاں ہیں تاہم شیو لنگم ہال کے بیچ میں شیشے کے کمرے میں موجود ہے۔

یہ مندر چٹی گٹی گاوں میں ہے لیکن یہ پہاڑ بھی چٹی گٹی کے نام سے ہی مشہور ہے جس کے ٹاپ پر ایک چٹان ہے جو کہ چٹی گٹی کے نام سے مشہور ہے اور مانسہرہ شہر کے علاوہ دور دور سے نظر آتی ہے۔

آثار قدیمہ کی تحقیق کے مطابق مندر کے اندر شیو پتھر بہت قدیم ہے۔ مندر کو سن 1830 کی دہائی میں جموں کے راجہ نے عقیدت کے طور پر بحال کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد کچھ لوگوں نے مندر پر قبضہ کر لیا، جس کے بعد مندر کو سیل کر دیا گیا تھا۔ سن 1998 تک ہندوؤں کو اس مندر تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ اسی برس ہندوؤں نے اس مندر کو دوبارہ حاصل کر لیا تھا۔

مانسہرہ میں واقع اس قدیم شیوا مندر کے انتظامی امور کے نگران درشن لال کا کہنا ہے کہ ہندو ہونے کی وجہ سے کبھی کسی مسلمان بھائی سے کوئی تکلیف نہیں ملی،”مندر کی بحالی میں مقامی لوگوں کا کردار بہت مثبت رہا ہے۔مندر میں ایک پنڈت جے پرکاش بھی ہیں مگر تہواروں کے موقع پر دس سے پندرہ پنڈت یہاں موجود ہوتے ہیں۔

مندر کی تاریخ کے بارے میں درشن لال نے کہا مندر میں موجود شیو لنگم ہزاروں سال پرانا ہے اور ابھی بھی اسی حالت میں موجود ہے، کئی سال پہلے جب بھارت میں بابری مسجد کو منہدم کیا گیا تو لوگوں نے شیو لنگم پر حملہ کیا تھا جس کے نشانات لنگم کے اوپر اب بھی موجودہ ہیں مگر اس کے بعد کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔

بتایا جاتا ہے کہ کئی سالوں تک یہ مندر بوسیدہ حالت میں توجہ کا طلب گار رہا۔ اطلاعات کے مطابق 2016 ء میں ہزارہ یونیورسٹی کے طلباء نے شیو مندر کی بحالی کے لیے ایک منصوبہ شروع کیا۔ اس دوران پاکستان یوتھ چینج ایڈووکیٹس، ڈائریکٹوریٹ آف آثار قدیمہ، عجائب گھر اور وزارت مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی کے تعاون سے بحالی کا کام کیا گیا۔

عمارت کی تزئین و آرائش و صفائی ستھرائی کی گئی اور پینٹنگ، کوڑے دان اور لائٹیں وغیرہ لگائی گئیں۔ حکومتی سرپرستی میں شروع کیے جانے والے اس پروجیکٹ کا مقصد یہ تھا کہ ملک کے اندر اور بیرون ملک سے آنے والے یاتریوں کو رسومات ادا کرنے میں مشکلات کاسامنا نہ کرنا پڑے، خطے میں امن اور رواداری کے جذبات کو فروغ ملے اور بین الااقومی سطح پر بھی ملک کی بارے میں مثبت تاثر اجاگر ہو۔

مندر کی حفاظت خیبر پختونخوا پولیس کرتی ہے اور پولیس اہلکار ہر وقت یہاں تعینات ہوتے ہیں، ڈیوٹی پر مامور اہلکار نے بتایا کہ مندرمیں آنے کے لیے ڈی پی او مانسہرہ سے خصوصی اجازت لینا پڑتی ہے، ہزارہ یونیورسٹی کے طلبہ ریسرچ کے لیے بھی اجازت لیتے ہیں۔ مقامی افراد کو بھی آزادی سے مندر میں آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ تہوار کے موقع پر سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد میں ضرورت کے مطابق اضافہ کیا جاتا ہے۔

مانسہرہ کے اس قدیم شیوا مندر میں اتوار کے دن ملک کے دیگر علاقوں سے ہندو پوجا کے لیے خصوصی طور پر آتے ہیں اس لیے اتوار کے دن ہندوؤں کے علاوہ کسی کو بھی مندر میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی، ہر سال فروری اور ساون کے مہینوں میں بھی سالانہ تہوار کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں پاکستان اور بیرون ملک سے متعدد ہندو یاتری پوجا کے لیے آتے ہیں۔

درشن لال نے مندر سے جڑی پانی کی گفا (غار) کے بارے میں بتایا کہ جب لنگم پر حملہ کیا گیا تو گفا سے ناگ دیوتا لنگم کی حفاظت کے لیے نمودار ہوئے اور آج تک ناگ دیوتا رات کے اوقات میں مندر کی حفاظت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مندر سے تقریبا تین سو میٹر کے فاصلے پر موجودہ اس گفا سے قدرتی پانی زمین سے آتا ہے جس میں ناگ دیوتا رہتے ہیں۔

اس حوالے سے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بزرگوں سے انسانی شکل کے سانپ کے بارے میں سنا تو ہے مگر کبھی دیکھا نہیں ہے۔ گفا کے چشمہ کا پانی شفاف ہے، جسے جلد کی بیماریوں اور ہاضمے کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندو یہاں پوجا کے لیے آتے ہیں، ناگ دیوتا کے لیے دودھ رکھنے کی رسم کرتے ہیں اور گفا کے پانی کو بہت مقدس مانتے ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.