طالبان نے پہلی بار ایک شیعہ نوجوان کوضلعی امیر مقرر کردیا
ویب ڈیسک
کابل: افغان طالبان نے پہلی مرتبہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے شیعہ نوجوان مولوی مہدی کو اپنا ضلعی سربراہ مقرر کردیا، مولوی مہدی کی ویڈ یو پیغام میں ہزارہ برادری کو طالبان میں شمولیت اختیا رکرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
طالبان نے گزشتہ ہفتے حال ہی میں سرپل صوبے میں مقرر کردہ ضلعی سربراہ مولوی مہدی کی ایک ویڈیو بھی جاری کی تھی،اپنے ویڈیو پیغام میں مولوی مہدی نے ہزارہ برادری پر زور دیا کہ وہ یہودی اور صہیونی حملہ آوروں کیخلاف جنگ کیلئے طالبان میں شمولیت اختیار کریں۔
اس حوالے سے خامہ پریس نیوز ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام اس تناظر میں بھی خاصا حیران کن ہے کہ طالبان نے 90ء کی دہائی میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد ہزارہ برادری کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں کیں۔
رپورٹ میں 1998ء میں بلخ کے علاقے مزار شریف میں ہزارہ افراد کا قتل عام کا حوالہ دیا گیا ہے ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تنظیم ملک میں اہل تشیع برادری کی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا افغان امن مذاکرات کے پیش نظر طالبان کی کوشش ہے کہ اہل تشیع افراد کی تنظیم میں بھرتیوں کے ذریعے برادری کی حمایت حاصل کی جائے۔
افغانستان کے ایک تجزیہ کار صابر ابراہیمی کا کہنا ہے کہ طالبان ایسی تنظیم نہیں تھی کہ جو ہر ایک کو بلا تخصیص شامل کرلے بلکہ کوئٹہ، پشاور اور دوحہ میں اس کی قیادت سنی پشتونوں پر مشتمل تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے پہلے طالبان نے خصوصاً شمالی افغانستان میں تاجک کمانڈرز کو برائے نام تنظیم میں شمولیت دی تھی تاہم اب یہ شیعہ ہزارہ کو بھی کچھ نمائندگی دے رہے ہیں۔
رپورٹ میں ایک اور تجزیہ کار یاور عادلی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران طالبان نے تاجک اور ازبک برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھی بھرتی کی ہے۔
— (بلال کریمي)BilalKarimi (@BilalKarimi14) April 22, 2020
انھوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ طالبان نے یہ محسوس کرلیا ہے کہ خود کو ملک گیر تحریک ثابت کرنے میں انہیں مطلوبہ کامیابی اس لئے حاصل نہیں ہو رہی کہ ہزارہ برادری پر ان کا اثر و رسوخ کم ہے۔