ڈنمارک کامیڈیا توہین سے باز نہ آیا،چینی پرچم پر کورونا وائرس بنا ڈالا
ویب ڈیسک
فوٹو: رائٹرز،اے ایف پی
اسلام آباد :ڈنمارک کامیڈیا تضحیک آمیز شرارت سے باز نہ آیا، چین میں ہلاکتوں کا باعث بننے والے کورونا وائرس پر بھی متنازعہ کارٹون بنا ڈالا اور چین کی طرف سے احتجاج بھی مسترد کردیا.
چین میں کورونا وائرس اب تک 361 قیمتی جانوں کو نگل چکا ہے 20 ہزار کے قریب لوگ متاثر اور زیر علاج ہیں لیکن انسانی المیہ کاردار محسوس کرنے کی بجائے ڈنمارک نے مذہب اور انسانیت کا مزاق اڑانے کی روایت برقرار رکھی ہے.
افسوسناک پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ شائع کیے گئے کارٹون میں چین کے قومی جھنڈے پر پیلے رنگ کے وائرس کے 5 نشانات دکھائے گئے تھے جس پر چینی حکام نے احتجاج کیا تو ڈنمارک کی وزیراعظم احتجاج مسترد کر کے اخبار کی حمایت کی.
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق ڈنمارک اخبار کی جانب سے کارٹونسٹ نیلس بو بوسن کے بنائے گئے کارٹون پر چینی حکام نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ کارٹونسٹ اور اخبار چینی عوام سے معافی مانگیں۔
اپنے قومی پرچم پر کورونا وائرس کے نشانات شائع کرکے اسے تصویر یا کارٹون کی شکل میں اخبار میں شائع کرنے پر چینی حکومت نے سخت برہمی کا اظہار کیا، سب سے پہلے ڈنمارک میں موجود چینی سفارتخانے نے اعتراض کیا اور کارٹونسٹ کے عمل کی سخت مذمت کی۔
چینی سفارتخانے نے ڈنمارک اخبار اور کارٹونسٹ پر تنقید کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ کارٹونسٹ کو اپنے عمل پر چینی عوام سے معافی مانگنی چاہیے۔
چینی حکام نے کارٹون یا تصویر کو چینی عوام کی تضحیک قرار دیا اور کہا کہ اس عمل سے چینی لوگوں کو دکھ پہنچا ہے تاہم چین کے مطالبے پر ڈنمارک حکومت نے معافی مانگنے سے انکار کردیا۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق ڈنمارک کی وزیر اعظم میڈی فریڈرکسن نے چینی حکام کی جانب سے معافی کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ملک میں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے۔
ڈنمارک کی وزیر اعظم نے چینی حکام پر واضح کیا کہ ان کے ملک کا اخبار اور کارٹونسٹ معافی نہیں مانگیں گے اور انہیں ہر طرح کا کارٹون یا تصویر شائع کرنے کا مکمل حق ہے۔
یورپی ملک ڈنمارک کے ایک اخبار کی جانب سے چین سے شروع ہونے والے کورونا وائرس کے حوالے سےاخبار ’دی جٹ لینڈ پوسٹ‘ میں ایک متنازع کارٹون شائع کرنے پر نیا تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔
ڈنمارک کے اخبار کی جانب سے کسی ملک یا مذہب کے خلاف تضحیک آمیز کارٹون یا تصویر شائع کرنے کایہ پہلا موقع نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی ڈنمارک کے اخبارات میں توہین آمیز کارٹون یا تصاویر شائع ہوتی رہی ہیں۔
ڈنمارک کے اخبارات میں کسی دوسرے ملک، قوم یا مذہب کے خلاف کارٹون یا تصاویر شائع کرنے کی پرانی تاریخ ہے اور اس حوالے سے دنیا بھر میں ڈنمارک کے خلاف مظاہرے بھی ہوتے رہے ہیں۔
ڈنمارک کی وزیراعظم کی طرف سے اس توہین آمیز رویہ کی حمایت پر سوشل میڈیا پر بھی تنقید کا سلسلہ جاری ہے کئی افراد نے ڈنمارک کی طرف سے معافی نہ مانگنے پر ڈنمارک کے سفارتی بائیکاٹ اور اس کے خلاف طاقت کے استعمال کا بھی مطالبہ کیا ہے.