فوٹو : فائل
نئی دہلی (ویب ڈیسک) معروف بھارتی مصنف اورشاعرجاوید اختر نے کہا ہے پاکستانی شاعر فیض احمد فیض کی نظم ہم دیکھیں گے کو ہندو مخالف کہنا جاہلانہ سوچ ہے۔
جاوید اختر نے بھارتی میڈیا اے این آئی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے مشہور شاعر فیض احمد فیض کی نظم ہم دیکھیں گے کو ہندو مخالف سمجھنا انتہائی مضحکہ خیز ہے۔
بھارت میں متنازع کالے قانون کی منظوری کے بعد ملک بھر میں احتجاج جاری ہے، یہ احتجاج اور مظاہرے پر تشدد شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں، ان مظاہروں کے دوران اب تک 30 کے قریب افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، اترپردیش اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے طلبہ پیش پیش ہیں۔
کانپور میں انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے مظاہرہ کرنے والے طلبہ کے خلاف تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جو احتجاج کے وقت فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ پڑھ رہے تھے۔
کمیٹی ایک فیکلٹی ممبر کی شکایت پر بنائی گئی ہے اور فیکلٹی ممبر نے دعویٰ کیا کہ نظم کا یہ مصرعہ’’جب ارضِ خدا کے کعبے سے، سب بت اٹھوائے جائیں گے” اور دوسرا "بس نام رہے گا اللہ کا” ہندو مذہب کے خلاف ہے۔
فیض احمد فیض کی نظم کے تناظر میں معروف بھارتی شاعر جاوید اختر کا کہنا تھا کہ فیض احمد فیض انقلابی شاعر تھے اور ان کی نظموں میں تو برصغیر بٹنے کا دکھ ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ نظم تو فیض نے جب لکھی تھی جب پاکستان میں ضیاءالحق کا دور تھا لہٰذا اس نظم کو ہندو مخالف کہنا اتنا مضحکہ خیز ہے کہ اس پر سنجیدہ گفتگو کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔
جاوید اختر کا مزید کہنا تھا کہ فیض کی نظم آزادی اظہارپر پابندیوں کے خلاف ہے، اس نظم کے خلاف بات کرنا جاہلانہ سوچ ہے۔
واضح رہے انڈیا میں شہریت کے متنازع قانون پر احتجاج کے دوران بھارتی سرکار کے خلاف مظاہروں میں اب لوگ نریندر مودی کی طرف سے اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے پاکستان پاکستان کرنے کی گردان پر بھی تنقید کرنی شروع کر دی ہے.
جاوید اختر کے علاوہ پڑھے لکھے ادبی حلقے، اداکار، شعبہ تعلیم سے وابستہ بھارتی شہری بھی بی جے پی کی انتہاپسندانہ پالیسیوں پر نالاں اور سراپا احتجاج ہیں.