عالمی یوم آزادی صحافت پر نیشنل پریس کلب میں سیمینار

0

اسلام آباد (ویب ڈیسک )نیشنل پریس کلب کے زیر اہتمام عالمی یوم آزادی صحافت کے حوالے سے "آزادی سیمینار” کا انعقاد کیا گیا۔

نیشنل پریس کلب اسلام آباد  میں ہو نے والےسیمینار میں سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی،فرحت اللہ بابر،شیری رحمن،رہنما جماعت اسلامی میاں محمد اسلم نے شرکت کی۔

رہنما جماعت اسلامی میاں محمد اسلم کا سیمینار سے خطاب کرتے ہوٸے کہنا تھافرد ظلم برداشت کرے تو معاشرہ مردہ ہو جاتا ہے جمہوریت اور صحافت معاشرے کی خدمت کے ادارے ہیں پاکستان میں ہمیشہ صحافت کی آواز کودبانے کی کوشش کی گئی جماعت اسلامی نے ہر مرحلے پر میڈیا کا ساتھ دیا ہے-

رہنما پیپلزپارٹی فرحت اللہ بابر نےکہا کہ تین مئی صحافیوں کے دکھ سکھ کا دن ہے گزشتہ پانچ سالوں میں 26صحافی فرائض کے دوران شہید ہوئے ایک بھی مقتول صحافی کے قاتل کو سزا نہیں ہوئی کیسز لواحقین کی اپنی طرف سے درج کی گئی کسی بھی مالک کی طرف سے مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔

فرحت اللہ بابر نے کہا اب مذاحتی صحافت دم توڑ رہی ہے سیفٹی اینڈ سکیورٹی کا بل پارلیمنٹ میں ٹیبل ہونے تک صحافیوں کو پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیں صحافیوں کی تنظیمیں ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہیں،گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔

سیمینار سے صدر پریس کلب نیشنل پریس کلب شکیل قرار نے خطاب کرتے ہوٸے کہا رمضان المبارک سر پر ہیں،صحافی چھ چھ ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں ہم اظہار رائے کی آزادی کی بات کرنا چاہتے تھے مگر ہمیں معاش کی طرف راغب کیا گیا ۔

انھوں نے کہا حکومت کی بے حسی اور خاموشی  نے میڈیا مالکان کو ریلیف دیا ہوا ہے حکومت میڈیا کارکنوں کو اس نہج پر نہ پہنچائے جہاں سے واپسی  کا راستہ نا ممکن نہ ہوں-

صدر پی ایف یو جے ورکرز پرویز شوکت نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوٸے کہا کہ اس وقت آزادیِ صحافت کا ہمیں مسٸلہ نہیں ہمیں تو اپنے مالی حقوق کا مسٸلہ ہے ہزاروں کے حساب سے میڈیا ورکرز برطرف ہوگٸے ہیں اور انہیں تنخواہیں بھی نہیں ملتی اور سیاستدان بھی مصلحت کا شکار ہیں۔

پرویز شوکت نے کہا پچھلے دور میں ہم نے جلوس نکالا تو ہم پر لاٹھیاں بھی برساٸی گٸیں میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنا احتساب بھی کر چاہٸے آج جن کو 6, 6 مہینے تنخواہ نہیں ملتی  انہوں نےکہا کہ سیاستدان ہمارا پوری طرح ساتھ نہیں دیتے کیوں کہ انہیں بھی یہ خطرہ ہوتا ہے کہ ہماری خبر نہیں چلے گی۔

  سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کا خطاب کرتے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ مجموعی ماحول مایوسی کا ہے اس ماحول میں کسی کو بھی ڈپریشن ہو سکتی ہے اس کامطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی جدوجہد کے مقصد فراموش کریں میڈیا کے مالکان نئے چینلز خرید رہے ہیں مگر ورکرز کو تنخواہیں نہیں دے رہے۔

انھوں نے کہا پورا ملک پی کارپوریٹ کلچر میں دھنس چکا ہے سیاسی جماعتیں بھی اس کارپوریٹ کلچر کا حصہ بن چکی ہیں صحافت سےمزاحمت کے خاتمے کا الزام دینے سے پہلے اپنے گریبان میں جھاکنا ہو گا سیاسی جماعتوں سے مزاحمتی سیاست ختم ہو چکی ہیں ۔

سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمن نے خطاب کرتے ہوٸے کہا صحافیوں نے تحریک اپنے حقوق کیلیے جدوجہد نہیں کی بلکہ اظہار راۓ  کی آزادی کیلئے جدوجہد کی پیپلزپارٹی اور میڈیا کو چولی دامن کا ساتھ ہے میڈیا کے ساتھ فٹ پاتھ پر بھی بیٹھنے کو بھی تیار ہںوں۔

سابق صدر نیشنل پریس کلب شہریار خان نے ایک طرف میڈیا مالکان نے اپنے مفادات کے لیے ایکا کر کے صحافیوں کے لیے مشکلات کھڑی کی ہیں تو دوسری جانب صحافیوں نے خود کو بھی دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے، سب اتحاد کا کہتے ہیں مگر چند لوگوں کو اتحاد سوٹ ہی نہیں کرتا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.