استعفوں کی منظوری کے لیے جلدی نہ کریں، ایک بار سوچ لیں،چیف جسٹس کاپی ٹی آئی کومشورہ
فائل:فوٹو
اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان نے قومی اسمبلی کے استعفے ایک ساتھ منظور کرنے کی درخواست پر ایک بار پھر پی ٹی آئی کو اسمبلی واپس جاکر کردار ادا کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہاہے کہ استعفوں کی منظوری کے لیے جلدی نہ کریں، ایک بار سوچ لیں
قومی اسمبلی سے تمام استعفے ایک ساتھ منظور کرنے کی پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ایک بار پھر تحریک انصاف کو اسمبلی واپس جانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوام نے پانچ سال کے لیے منتخب کیا ہے، پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرے۔ پارلیمان میں کردار ادا کرنا ہی اصل فریضہ ہے۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ کروڑوں لوگ اس وقت سیلاب سے بے گھر ہوچکے ہیں۔ سیلاب متاثرین کے پاس پینے کا پانی ہے نہ کھانے کو روٹی۔ بیرون ملک سے لوگ متاثرین کی مدد کے لیے آ رہے ہیں۔ ملکی کی معاشی حالت بھی دیکھیں۔ پی ٹی آئی کو اندازہ ہے 123 نشستوں پر ضمنی انتخابات کے کیا اخراجات ہوں گے؟۔ جسٹس اطہر من اللہ نے گہرائی سے قانون کا جائزہ لے کر فیصلہ دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ اسپیکر کے کام میں اس قسم کی مداخلت عدالت کے لیے کافی مشکل کام ہے۔ استعفوں کی تصدیق پروسیجرل مسئلہ ہے۔ پارلیمان کا احترام ہمارا فریضہ ہے، جو ہم کریں گے۔ ممکن ہے ایک ساتھ استعفوں سے تحریک انصاف کو سیاسی فائدہ ہو۔ تحریک انصاف کا پہلا فریضہ پارلیمان میں شمولیت ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے استعفوں کے آرڈر پر ہم سے فیصلہ نہ لیں، ممکن ہے نئے آنے والے اسپیکر اسمبلی تصدیق کر کے اپنی تسلی چاہتے ہوں۔ تحریک انصاف پر ذمے داری ہے چیزوں کو جلدی میں نہ کریں۔
دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چودھری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قاسم سوری نے تحریک انصاف کے استعفے منظور کر لیے تھے۔ استعفے منظور ہو جائیں تو دوبارہ تصدیق نہیں کی جا سکتی۔
سپریم کورٹ کے بینچ کی رکن جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دئیے کہ تحریک انصاف بطور جماعت کیسے عدالت آ سکتی ہے؟ استعفا دینا ارکان کا انفرادی عمل ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ریاست کے معاملات میں واضع داری اور برداشت سے چلنا پڑتا ہے۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ جلد بازی نہ کریں۔ سوچنے کا ایک اور موقع دے رہے ہیں، پارٹی سے ہدایات لیں۔
دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چودھری نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ من پسند حلقوں میں انتخابات نہیں ہوسکتے۔ شکور شاد کے سوا کسی رکن نے استعفے سے انکار نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اسپیکر سے کبھی پوچھا ہے کہ استعفوں کی تصدیق کیوں نہیں کر رہے؟۔ اسپیکر کا اپنا طریقہ کار ہے ہم کیسے مداخلت کر سکتے ہیں؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہر ادارے کی اپنی صلاحیت ہوتی ہے۔ عام انتخابات کے لیے پورا نظام ہوتا ہے۔ ضمنی انتخابات میں ٹرن آوٴٹ بھی کم ہوتا ہے۔ عدالت نے فیصل چودھری کو مزید تیاری کا وقت دیتے ہوئے استعفوں کی منظوری کے خلاف پی ٹی آئی کی اپیل پر عمران خان سے ہدایات لینے کی مہلت دے دی۔
چیف جسٹس نے نے کہاکہ استعفوں کی منظوری کے لیے جلدی نہ کریں، ایک بار سوچ لیں۔ پارٹی ارکان آپ کی لیڈرشپ ہیں۔ عدالت نے سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی۔
Comments are closed.