صحافی ہراساں کیس، قانون ہی موجود  نہیں تو ایف آئی اے کارروائی کیسے کر سکتی ہے؟

فائل:فوٹو

اسلام آباد: صحافی ہراساں کیس، قانون ہی موجود  نہیں تو ایف آئی اے کارروائی کیسے کر سکتی ہے؟  اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے معاملے میں ایف آئی اے کی نظرثانی کی استدعا پر 2 ہفتوں کی مہلت دے دی۔

صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف کیس میں ایف آئی اے نے نظر ثانی کے لیے وقت مانگ لیا، جسے عدالت نے منظور کرلیا۔

دوران سماعت ایف آئی اے کی جانب سے موٴقف اختیار کیا گیا کہ سمیع ابراہیم نے افسران میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی۔آرمی چیف سمیت اداروں کو ٹارگٹ کرکے ڈائریکٹ سوال کیا جاتا ہے کہ حساب دو۔ ان کی فین فالونگ بہت زیادہ ہے جس کو سن کر بیانیہ بنتا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ بیانیہ تو سیاسی جماعتیں بھی بناتی ہیں، کس کس کو پکڑیں گے۔ ایف آئی اے کی جانب سے اجازت طلب کی گئی کہ اگر آپ کہیں تو وہ لائنیں پڑھ کر سنادی جائیں، جس پر عدالت نے کہا کہ کیا آپ اتنے کمزور ہیں کہ کوئی خوف زدہ کرسکتا ہے؟۔

ایف آئی اے کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ سینئر افسر کو جب کہا جائے کہ حساب دو تو یہ دھمکانا ہی ہوا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ بات غلط ہوسکتی ہے مگر جرم کیا بنتا ہے؟۔ کیا تقریر کے علاوہ بھی سمیع ابراہیم کے خلاف کوئی الزام ہے؟۔ ایف آئی اے کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ صرف تقریر ہی ریکارڈ پر ہے، اس کیس میں ریاست شکایت گزار ہے۔

عدالت نے کہا کہ ریاست تو نیچرل پرسن نہیں۔ اگر کمپلینٹ نیچرل پرسن نہ ہو تو آپ کا دائرہ اختیار نہیں بنتا۔

عدالت نے ایف آئی اے حکام سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق فیصلہ کریں ورنہ عدالت آپ کے خلاف کارروائی کرے گی۔ آپ کا احترام کرتے ہیں۔ جب قانون میں ایک چیز نہیں تو آپ کیسے کارروائی کر سکتے ہیں۔ آپ با اختیار ہیں، اس لیے قانون کے مطابق چلیں۔

ایف آئی اے حکام نے کیس پر نظرثانی کے لیے وقت مانگ لیا، جس پر عدالت نے 2 ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

Comments are closed.