یوم آزادی اور نوجوانوں کی فوج

وقار فانی

اس بار14 اگست کو ہم 75واں یوم آزادی منائیں گے،آزادی کی یہ نعمت ہمیں بڑی صعوبتوں،لازوال قربانیوں اور شبانہ روز کی محنت سے ملی۔یقین کیجئے وطن کی پاسبانی،وطن کی خدمت اور اس کی حفاظت جان و ایمان سے بھی افضل ہے۔

، 14 اگست کو پاکستان میں سرکاری طور پر تعطیل ہوتی ہے، جبکہ سرکاری ونیم سرکاری عمارات پرسبز ہلالی پرچم لہرایاجاتا ہے۔برقی قمقموں سے عمارتیں سجائی جاتی ہیں،تمام صوبوں میں مرکزی مقامات پر تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے او ر ساتھ ساتھ ثقافتی پروگرام کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔

سرکاری و نجی اداروں کے سربراہان پرچم کشائی کی تقاریب میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ سکولوں اور کالجوں میں بھی پرچم کشائی کی تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ رنگارنگ تقاریب، تقاریر اور
مذاکروں کا اہتمام ہوتاہے۔ریلیاں نکلتی ہیں۔

آزادی کے نعرے گونجتے ہیں۔مختلف ممالک میں پاکستانی سفارتخانوں،قونصلیٹ میں بھی جشن آزادی کی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔کھیلوں کے مقابلے ہوتے ہیں،بیت بازی کی محفلیں جمتی ہیں۔سبز اور سفید رنگ کی اک بہار دکھائی دیتی ہے۔

اسی روزبانی پاکستان حضرت قائد اعظم کے مزار اقدس پر سرکاری طور پر گارڈ زکی تبدیلی کی تقریب منعقد کی جاتیہے۔ اسی طرح واہگہ بارڈر پر بھی ثقافتی تقاریب میں محافظوں کی تبدیلی کا عمل وقوع پزیر ہوتا ہے جبکہ غلطی سے واہگہ سرحد پار کرنے والے قیدیوں کی دوطرفہ رہائی بھی ممکن بنائی جاتی ہے۔

آزادی ایسی نعمت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔اس دن کا آغاز ہی دعا سے ہوتا ہے، توپوں کی سلامی ہمیں آزادی کی فضا میں جینے کی نئی نوید دلاتی ہے۔ہم 1947 سے یہ دن مناتے چلے آرہے ہیں اور اس بار جوش و خروش کچھ زیادہ ہے، قربانیاں رنگ لارہی ہیں اور دشمنوں میں گرا ”ایٹمی پاکستان“ اپنے دفاع کے لئے مضبوط و مستحکم کھڑا ہے۔

امن کے لئے انمول داستانیں رقم کرنے والا پاکستان قائم و دائم ہے اور ہمیشہ قائم و دائم رہے گا۔یہاں کا نوجوان خواب آنکھوں میں سجائے وہ منزل ڈھونڈھ رہا ہے جس کی اسے تلاش ہے۔یہ حقیقت ہے کہ آزاد وطن کی مجموعی آبادی کا کل 64 فیصد حصہ 30 برس سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔

یوم آزادی اور نوجوانوں کی فوج کی تفصیل جان لیں ، 64 فیصد نوجوانوں کی تعداد چودہ کروڑ سے زائد بنتی ہے اوروقت کے ساتھ ساتھ یہ تعداد بڑھتی جائے گی۔ خواندگی و ناخواندگی کے اعتبار سے 100 میں سے 29 نوجوان ناخواندہ ہیں۔ ناخواندہ ہونے کا مطلب جنہوں نے سرے سے تعلیم ہی حاصل نہیں کی، انہیں اپنا نام تک لکھنا یا پڑھنا نہیں آتا.

ہر 100 میں سے صرف 6 نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے 12 سال سے زائد تعلیم حاصل کر رکھی ہے، جس میں بیچلر، ماسٹرز، ایم فل، پی ای ڈی کی سطح تک کی تعلیم شامل ہے۔ اور 100 میں سے بقیہ 65 نوجوان ایسے ہیں جن کی تعلیم 12 سال یعنی انٹر یا ایف اے، ایف ایس سی کی سطح سے نیچے ہے، جس میں پرائمری اور مڈل کی سطح تک کی تعلیم شامل ہے۔

ایک محتاط اندازہ کے مطابق روزگارو معاش کے اعتبار سے 100 میں سے 39 نوجوان ملازم ہیں۔ ان 39 میں سے 7 خواتین، جب کہ 32 مرد ہیں۔ پھر ان 100 افراد میں سے 57 افراد جن میں 41 خواتین اور 16 مرد ایسے ہیں جو نہ تو ملازمت کر رہے ہیں. اور نا ہی ملازمت کی تلاش میں ہیں.

صرف 4 فیصد بے روزگار نوجوان ایسے ہیں جو ملازمت کی تلاش میں ہیں۔ان نوجوانوں میں سے 15 فیصد کو انٹر نیٹ تک رسائی حاصل ہے۔ 52 فیصد نوجوان اپنا موبائل فون رکھتے ہیں۔ 94 فیصد کو لائبریری کی سہولت میسر نہیں، اور 93 فیصد کو کھیلنے کے لئے میدان میسر نہیں۔

یہ حالت ہے آج کے نوجوان کی۔حکومتوں کی بنیادیں ڈالنے میں جس طبقے کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے بدقسمتی سے حکومتوں کے قیام کے بعد انہیں پوچھا تک نہیں جاتا۔ یہ معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ اقوام کی کامیابی میں ان کا کلیدی کردار ہوتاہے۔

اگر نوجوانوں کے بنیادی مسائل، حقوق و ضروریات کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ معاشرے اور اقوام کی تنزلی کا باعث بھی بنتے ہیں۔یہ عقابی روح والے اپنی منزل آسمانوں میں تلاش کرتے کرتے نشے سمیت دیگر قباحتوں میں جت جاتے ہیں۔

ریل کی پٹریوں کے کنارے، گندے نالوں کے آس پاس ایسی تعداد آپ گننے سے بھی قاصر ہوں گے۔یوتھ کے نام پر ہمیشہ کھلواڑ کیا جاتا رہا،سبز باغ دکھائے جاتے رہے اور نعرے لگوائے جاتے رہے۔ہمارے ہاں ہمیشہ آس ٹوٹی ہے، امید کو روندھا گیا ہے،حوصلے پست کئے جاتے رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نوجوان طبقہ مایوس نہیں.

نوجوان ہمت نہیں ہارا،جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔خدا کرے اس کے خوابوں کو تعبیر ملے،اس کی آس بندھی رہے اس کی ہمت جواں رہے اور وہ دن آ پہنچے جب اپنی تقدیر کے فیصلے یہ خود لکھے۔اقبال کا یہ شاہین اپنا نشیمن پہاڑوں پر بنانے میں کامیاب ہو،قائد کی تحریک کو متحرک رکھنے والے کو منزل ملے۔افرادی قوت کی یہ کھیپ پاکستان کو ترقی یافتہ بنائے۔

Comments are closed.