وقت کے سارے خداوں سے الجھ بیٹھا ہوں
محبوب الرحمان تنولی
چپل پہنتاتو کمپنی برینڈ بن جاتی.
شرٹ زیب تن کرتا توشرٹ بنانے والی فیکٹری میں آرڈرز کا تانتا بندھ جاتا.
کہا ہم کوئی غلام ہیں کیا؟
نوجوان نسل نے یہ لائن پکڑ لی.
خوداری کا درس دیا۔ لاکھوں پیروکاروں نے اپنا لائف اسٹائل بدل ڈالا.
آگے بڑھنا ہے تو سوچ بھی اونچی رکھو، مجھے کارکن نہیں لیڈر پیدا کرنے ہیں،
ینگسٹرز کے دل میں یہ الفاظ گھر کر گئے.
دوستی سب سے لڑائی کسی سے نہیں۔ شہرہ آفاق لائن لینتھ.
انسانیت سازی کے بڑے بڑے لیکچرز
وہ شخص اکیلا چلا تھا۔ اب 2 کروڑ انسان اس کے سنگ قدم بہ قدم.
طلسماتی شخصیت ایسی کے امریکی صدر مرعوب ہو گیا.
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ہو یا کوئی اور فورم
جہاں گیا سب سے قدآور دکھائی دیا.
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن تک اس کے ساتھ سیلفیاں بنانے کےلئے ہوئے بے تاب.
عالمی شخصیات جسے دیکھنے ملنے کی مشتاق.
امت مسلمہ کی جو بنا آواز۔ امیدکی کرن بن کر ابھرا.
مسجد اقصیٰ کے امام جس کےلئے دعائیں کریں.
اس کے لہجے میں بھلا کی کشش ۔ گفتگو میں دلائل۔ سادگی کا ماڈل.
پلے بوائے کہلاتا تھا..
وزیراعظم بنا تو قومی لباس کے بغیر کبھی نظر نہ آیا.
آکسفورڈ کا فارغ الحتصیل مگر اپنوں سے انگلش نہیں بولتا.
پارلیمنٹ پہنچا تو سلیکٹڈ کہتے تھے۔ حکومت میں آیا تو اناڑی.
کورونا پھیلا تو بضد تھا لاک ڈاون نہیں کرنا غریب رل جائیں گے.
مخالفین کا جتھہ لاک ڈاون نہ کرنے پر اس کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی دھمکیاں دیتا رہا.
منظر پھر تبدیل ہوا۔ عالمی ادارہ ہیلتھ سمیت پوری دنیا اس کے اقدامات کی مدح سرائی کرنے لگی.
معاشی پست حالی قدم قدم پر اس کے پاوں کی زنجیر بنی.
اس نے عالم اسلام کو متحد کرنا چاہا تو ملائشیا دورے کی راہ میں دھمکیاں رکھ دی گئیں.
جوں جوں وہ خودی کا سبق پڑھتا رہا۔ نوجوان ساتھ آتے اور ذہنی غلام دور ہوتے گئے.
روس کا دورہ ریڈ لائن بنا دیاگیا.
واپس آیا تو پورے پاکستان کا مسترد شدہ حلقہ اس کے سامنے کھڑا کردیا گیا.
چیف ایگزیکٹو وہ تھا مگر اسے پتہ نہ تھا شاہراہ دستور پر جیل کی وین کس نے بھیجی؟
اقتدار سے الگ ہوا تو الزامات کی مون سون چل پڑی.
دیسی مربہ ساز بھی مخالف ۔ ملزمان کا اتحاد بھی اوپر بٹھا دیاگیا.
ملک میں ہر تباہی کا الزام اس کے سر۔ گفتگو کا آغاز ہی اس کے نام سے ہونے لگا.
معاشی تباہی کا ذمہ دار عمران خان۔ مہنگائی کی وجہ عمران خان.
بارہ جماعتوں کے درجنوں ترجمانوں کی پریس کانفرنسز کا سیلاب آگیا.
ایک ایک دن میں 7 سے 9 پریس کانفرنسز۔ ایک ہی ٹاپک عمران خان۔ معاشی بدحالی کا ذمہ دار قرار.
بجٹ بننے لگا تو اعدادو شمار نے بتایامعاشی بدحال کے دور میں شرح نمو 6 فیصد تھی
ملکی برآمدات ریکارڈ سطح پر چلی گئیں تھیں.
بیرون ملک پاکستانیوں نے کمال بھروسہ کیا اور ترسیل زر بلندیوں پر رہیں.
ایک سلیکٹڈ نے اپنے دماغ سے کام لینا شروع کرنے کی غلطی کی.
بارہ جماعتوں نے خدمات پیش کردیں۔ ووٹ کو عزت دو کا لاشہ ہوا دفن.
کپتان نے خوداری امریکی غلامی نامنظور کا بیانیہ دیا.
نئی نسل نے نیا منشوراپنا لیا۔ بیانیہ جادو کی طرح سر چڑھ کر بولا.
نئے بیانیہ کے سامنے سب پٹ گئے.
پنجاب میں چناو ہوا۔ پنڈی اسلام آباد ہی نہیں پورا پاکستان مخالف کھڑا تھا.
کپتان نے غلامی کی سوچ کو چار شانے چت کردیا.
سلیکٹڈڈ کے طعنے دے کر خود سلیکٹ ہونے والے مقابلے میں کھڑے بونے نظر آئے.
منظر پھر بدل رہا ہے.
اب کی بار کپتان کی جماعت تنہا ، مقابلے میں ملک بھر کی سیاسی جماعتیں..
معلوم اور نامعلوم کی تفریق ختم.
کوئی علیم و ترین پھر وارد نہ ہوئے تو کپتان کو ہرانا ناممکن.
انتخابی اصلاحات کے نام پہ ٹمپرنگ بھی چیلنج۔ الیکشن کمیشن بھی.
آئندہ انتخابی معرکہ دلچسب ہوگا.
یوتھیوں نے پولنگ اسٹیشنز پر پہرے دینا سیکھ لیا.
پاکستان کی 70فیصد آبادی ساتھ کھڑی ہے تو 90 فیصد تارکین وطن ہمنوا.
ایک طرف بوسیدہ نظام کے طرفدار ۔ بیگرز کانٹ چوزرکے حامی.
دوسری طرف خوداری اور ملک اوپر لے جانے کی سوچ سے سرشار نوجوان.
جیت جس کی بھی ہو،
کپتان نے نئی نسل کی سوچ بدل دی.
نئی بساط بچھے گی تو فیصلہ ہوگا۔ عوام کی رائے کا احترام ہوگا یا قتل عام؟
وقت کے سارے خداوں سے الجھ بیٹھا ہوں
Comments are closed.