میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاوں گا، احمد ندیم قاسمی کی آج 14 ویں برسی

لاہور : میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاوں گا، احمد ندیم قاسمی کی آج 14 ویں برسی ہے، وہ کئی دہائیوں تک قلم کی نوک سے اپنے فن کی دھاک بٹھاتے اور بزم ادب کی روشن شمعِ کی طرح جگمگاتے رہے.

نامور احمد ندیم قاسمی 20 نومبر 1916 کو وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ ضلع خوشاب کے ایک اعوان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام پیر غلام نبی تھا۔

انھوں نے ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی، 1920ء میں انگہ کی مسجد میں قرآن مجید کا درس لیا۔ اس کے بعد اپنے چچا حیدر شاہ کے پاس کیمبل پور چلے گئے جہاں مذہبی، عملی اور شاعرانہ ماحول میسر آیا۔

احمد ندیم قاسمی نے 1921 – 1925میں گورنمنٹ مڈل اینڈ نارمل اسکول کیمبل پور (اٹک) میں تعلیم پائی۔ 1930ء-1931ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول شیخو پورہ سے میٹرک کیا اور 1931ء صادق ایجرٹن کالج بہاولپور میں داخل ہوگئے جہاں سے 1935ء میں بی اے کیا۔

منفرد ہجے کے شاعر احمد ندیم قاسمی بہاولپور سے لاہور پہنچے تو اختر شیرانی سے ملاقات ہوئی۔ وہ انہیں بے حد عزیز رکھنے لگے اور ان کی کافی حوصلہ افزائی کی۔

اسی دوران احمد ندیم قاسمی کی لاہور میں امتیاز علی تاج سے ملاقات ہوئی جنہوں نے انہیں اپنے بچوں کے رسالے پھول کی ادارت سونپ دی۔ ایک سال ادارت کی اور اس دوران بچوں کے لیے بہت سی نظمیں بھی لکھیں۔

احمد ندیم قاسمی ادب کی دنیا میں قدم رکھا تو جس صنف میں طبع آزمائی کی اسے امر کر دیا ان کی شاعری کی ابتداء 1931ء میں ہوئی تھی جب مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم روزنامہ سیاست لاہور کے سرورق پر شائع ہوئی۔

1934ء اور 1937ء کے دوران ان کی متعدد نظمیں روزنامہ انقلاب لاہور اور زمیندار لاہور کے سرورق پر شائع ہوتی رہیں۔1964ء سے امروز لاہور میں ادبی، علمی اور تہذیبی موضوعات پر ہر ہفتے مضامین لکھتے رہے۔

احمد ندیم قاسمی نے 1936 میں انجمن ترقی پسند سے وابستگی اختیار کر لی تھی۔ وہ انجمن کے سکریٹری بھی رہے اور انہیں دو بار جیل بھی گئے۔

بچوں کے اصلاحی ڈرامے ہوں یا سماجی تبدیلی کی تحریریں، نثر سے نظم تک ہر لفظ صدائے قاسمی بن کر آج بھی بے شمار لوگوں کے لئے امید کا دیا اور ہمت کا سرچشمہ ثابت ہو رہی ہیں۔

احمد ندیم قاسمی نے بے شمار ادبی رسائل میں ادارتی فرائض بھی سرانجام دیئے ان کی سترہ سے زائد افسانوی اور چھ شعری مجموعوں سمیت متعدد کتابیں شائع ہوئیں۔

احمد ندیم قاسمی کو پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارہ امتیاز سمیت متعدد ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا۔ دنیائے صحافت، فن و ادب کا یہ چمکتا ستارہ 10 جولائی 2006میں دنیا فانی سے رخصت ہو گیا۔

Comments are closed.