ہم کب شفاف الیکشن دیکھیں گے؟
عظیم چوہدری
ناگزیر لوگوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں بلکہ کچھ کی قبور کا تو نام و نشان بھی نہیں ملتا۔ چند مزار بھی موجود ہیں جہاں کبھی کبھی سیاسی کارکن، رشتہ دار، سیر و سیاحت کرنے والے اور بہت ہی کم عقیدت مند فاتحہ پڑھ لیتے ہیں۔ بعض جگہوں پر مدتوں کوئی دعا کے لیے بھی نہیں جاتا۔
ہماری قومی سیاسی تاریخ میں ایک بھی الیکشن ایسا نہیں جو تنازعات کا شکار نہ بنا ہو۔ مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ کی کامیابی تمام شبہات سے بالاتر تھی مگر سیاسی نتیجہ ان کے حق میں نہ نکلنے کے باعث بالآخر پاکستان ٹوٹ گیا، ہم کب شفاف الیکشن دیکھیں گے؟
ہمارا دوسرا بالواسطہ انتخاب 1964ء میں 1962ء کے فردِ واحد کے دیے گئے دستور کے تحت محترمہ فاطمہ جناح اور فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے درمیان ہوا۔ یہ انتخاب عوام سے بہت ہی دُور رکھا گیا اور ریفرنڈم ہی کی طرح ایک بلدیاتی نظام کے تحت بنیادی جمہوریتوں کے ملک بھر کے صرف 80 ہزار ارکان کو ووٹ کا حق دیا گیا۔
فوجی صدر ہو اور ڈپٹی کمشنر شہر کے بلدیاتی ارکان کی اکثریت حاصل نہ کرسکے، یہ اس کی موت کی علامتوں میں ایک ہے۔ 1964ء تو بہت دُور کی بات ہے، یہ آج بھی ممکن ہے۔
1983ء میں بلدیہ عظمی لاہور کے رکن کے طور پر میں یہ سب کچھ اپنی نظروں کے ساتھ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر دیکھ چکا ہوں۔ 37 ممبران کی حمایت والے صاحب شہر کے میئر بن گئے تھے، بس بلدیاتی آرڈینینس کی ایک دفعہ 29 تھی، جس کے تحت منتخب رکن کو حلف اٹھانے سے روکا جاسکتا تھا۔ یہ بہت چھوٹی مثال ہے اصل تو 1964ء کا صدارتی انتخاب تھا۔
محترمہ فاطمہ جناح انتخاب میں حصہ نہیں لینا چاہتی تھیں۔ 21 جولائی 1962ء کو ڈھاکہ میں سابق وزیرِاعظم خواجہ ناظم الدین کی دعوت پر عوامی لیگ، نیشنل عوامی پارٹی، مسلم لیگ، نظام اسلام جماعت اور جماعت اسلامی کے رہنماوں خواجہ ناظم الدین، سابق وزیرِاعظم چوہدری محمد علی، نوابزادہ نصراللہ خان، یوسف خٹک، احمد الکبیر، مولوی زید احمد، اختر الدین احمد اور عبدالسلام خان شامل ہوئے۔
ان کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ انتخاب براہِ راست ہوں اور بالغ رائے دہی عام ہو اور ملک میں بنیادی حقوق بحال کروائے جائیں۔ اس اجلاس کا مقصد ون یونٹ، سیٹو اور سینٹو امریکی معاہدات سے علیحدگی اور امریکا کے ساتھ دیگر مسائل پر معاملات طے کرنے اور متفقہ صدارتی امیدوار پر اتفاق رائے قائم کرنا تھا۔
یہ بھی طے کیا گیا کہ 9 نکات جن پر اتفاق رائے قائم ہوا ہے، اس کی روشنی میں ہر امیدوار کو ایک حلف نامے پر دستخط کرنے تھے کہ کوئی بھی ان 9 نکات سے انحراف نہیں کرے گا۔ (کسی دوسرے موقع پر ان 9 نکات کی تفصیل تحریر کروں گا)۔
2ا کتوبر کو جماعت اسلامی کی مجلس شوری کے ایک اجلاس میں طے پایا کہ محترمہ فاطمہ جناح کو ناصرف صدارتی انتخاب کے لیے راضی کیا جائے بلکہ ان کی بھرپور حمایت کی جائے۔ اسی موقع پر حکومت نے یہ بحث ملک میں عام کروائی کہ عورت سربراہِ مملکت نہیں ہوسکتی، جس کے بعد سب سے پہلے سید ابوالاعلی مودودی امیر جماعت اسلامی نے اس رائے کا اظہار کیا کہ ایسی خاتون کو سربراہِ مملکت تسلیم کیا جاسکتا ہے جو ملک کی بھلائی کے لیے کام کرسکتی ہو جبکہ ان کا مقابلہ ایسے فرد کے ساتھ ہو جو قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ شرعی جواز کے مطابق ایسا بہت ہی خاص حالات میں ہوسکتا ہے کہ ہم خاتون کو تسلیم کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایسی خاتون کو سربراہ مان لیں جس سے ملک کو بھلائی کی توقع ہو، اور کوئی شخص یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ ازروئے شریعت عورت کا سربراہِ مملکت ہونا حرام ہے۔ انہوں نے ملکہ سبا کا بھی ایمان لانے کے بعد حوالہ دیا اور کہا کہ اس بارے میں حضرت سلیمان علیہ السلام کو کوئی وحی نہ آئی تھی۔ اس حوالے سے مختلف شخصیات نے حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ، یمن کی سیدہ حوا، ہندوستان کی چاند بی بی، رضیہ سلطانہ، بیگم سلطان جہاں اور دیگر کے حوالہ جات بھی دیے۔
1962ء سے 1964ء تک سی او پی کی 5 جماعتوں کے متواتر اجلاس ہوتے رہے مگر صدارتی امیدوار نہیں مل سکا۔
ایوب خان نے پھر طنزاً کہا کہ اپوزیشن بھی مجھے ہی امیدوار بنانے پر مجبور ہوگی۔ جنرل اعظم خان مشرقی پاکستان میں بہت مقبول تھے اور ان کے بارے میں بھی غور رہا مگر بالآخر خاتونِ پاکستان محترمہ فاطمہ جناح کا نام ہی سامنے آیا۔
مولانا بھاشانی سی او پی کے اہم رہنما تھے مگر سیکولر خیالات کے مالک تھے۔ مولانا بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی کے ایک رہنما مسیح الرحمٰن کے ذریعے کنونشن مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری ذوالفقار علی بھٹو نے ایک پیشکش کی اور وہ رقم قبول بھی کرلی گئی۔ شرط یہ تھی کہ سی او پی کی شق 8 کے تحت اسلامی نظام کی شرط کو ختم کریں یا آپ الگ ہوجائیں۔ مولانا بھاشانی پھسل چکے تھے مگر نوابزادہ نصراللہ خان نے ان کو بے بس کردیا کہ آپ کے دستخط موجود ہیں اور پاکستان میں 90 فیصد مسلمان ہیں تو ایسی صورت میں سیکولر نظام کیسے ہوگا۔
بالآخر سی او پی کے رہنماوں نوابزادہ نصراللہ خان، خواجہ ناظم الدین، چوہدری محمد علی، شیخ مجیب الرحمٰن اور مولانا بھاشانی محترمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی۔ محترمہ نے ایک ہفتہ سوچنے کے لیے طلب کیا تو کہا گیا کہ حکومت منفی پروپیگنڈا چلا کر صورتحال کو خراب کر دے گی۔ دنیا باہر انتظار کررہی ہے کہ ایوب خان کا مقابلہ کون کرے گا۔ محترمہ فاطمہ جناح کوئی عام شخص نہ تھیں اور صورتحال سے پوری طرح آگاہ تھیں جبکہ ان سے اصرار بھی خوب ہو رہا تھا چنانچہ فوری ہاں کی اور کہا اعلان کردیں۔
بس پھر کیا تھا ایوب خان کی پریشانی حد کو پہنچ گئی اور انہوں نے کوئی حکومتی ہتھکنڈا نہ چھوڑا۔ جید علما سے فتوے لیے گئے مگر عوام ایک زبان تھی کہ مادرِ ملت ہی بہترین صدر ہوں گی۔
جب کاغذات نامزدگی جمع ہو رہے تھے تو حکومت کی طرف سے ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، وزیرِ خزانہ محمد شعیب، عبدالصبور بھی امیدوار تھے۔ دوسری طرف محترمہ فاطمہ جناح اپوزیشن کی مشترکہ امیدوار تھیں۔ یعنی کُل 7 امیدوار میدان میں اترے۔
جس طرح پرویز مشرف فوجی اور نااہل ہوتے ہوئے صدر بنے یہی حال ایوب خان کا تھا۔ موصوف فوج سے بھی تنخواہ لے رہے تھے اور سویلین بھی نہ بنے تھے۔ آئین کے مطابق نااہل تھے کیونکہ سروس ختم ہوئے ابھی 2 سال نہیں ہوئے تھے۔ پھر ایک پرانے نوٹیفکیشن کا سہارا لیا گیا جو ناقابلِ عمل اور ناقابلِ قبول تھا۔ آرمی ایکٹ بھی اجازت نہیں دیتا تھا مگر اس وقت کے نامور قانون دان شیخ منظور قادر نے دباو استعمال کرکے کاغذات مسترد نہیں ہونے دیے۔
دوسری جانب ایسا کارنامہ سرانجام دینے کی کوشش ہو رہی تھی کہ محترمہ فاطمہ جناح کا نام ووٹر لسٹ سے ہی نکال دیا جائے۔ ریٹرننگ افسر نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر محترمہ کے وکیل منظر بشیر نے ایسا نہیں ہونے دیا۔
سوال یہ ہے کہ 1964ء سے آج تک ہر طرح کے انتخابات ہوتے تو رہے ہیں مگر ان میں اصلاح کیوں نہ ہوسکی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان ہر بار ہر دور میں متنازعہ ہی رہا۔ سیاستدان اپنے باہمی اختلافات کی بنا پر ضروری اور درست شخصیت سے بالاتر ہوکر قانون سازی سے منحرف ہیں یا اس کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
یہ حقیقت ہے کہ بین الاقوامی ادارے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو امداد بھی دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی بھی اصلاح کرے اور غیر جانبدارانہ، منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کروا سکے۔ مگر سیکڑوں ہزاروں افراد کی موجودگی میں غیر متنازعہ الیکشن کمیشن کیسے ممکن ہوگا۔
اگر ہمیں بین الاقوامی ادارے بھی تربیت نہیں دے سکے تو کون ہوگا ہمارا نگہبان؟ ہم اور ہمارے اداروں نے تو خاتونِ پاکستان کو بھی بالواسطہ انتخاب میں ہروا دیا تھا۔ کیا ہم مقامی حکومتوں کے اختیارات سے متعلق آئین کی دفعہ 140 اے پر یقین رکھتے ہیں یا نہیں، یا پھر ہم چور طریقے ڈھونڈتے ہیں اور آسان راہوں پر چلنا چاہتے ہیں؟ یاد رہے کہ قومیں اپنے اعمال سے ہی تباہ ہوتی ہیں۔ اگر محترمہ انتخاب جیت جاتیں تو پاکستان واقعی ایک جمہوری اور وفاقی پارلیمانی جمہوریت کے ساتھ ساتھ فلاحی ریاست بھی ہوتا۔ ( بشکریہ ڈان نیوز)
Comments are closed.